عجب کرپشن کی غضب کہانی

May 31, 2023

’’نائن الیون‘‘ کو امریکہ اور ’’نائن فائیو‘‘ کو پاکستان کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں اس دن سیاست کے نام پر پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں نے جس دہشت گردی کا مظاہرہ کیا، وہ ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دہشت گردی کے یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا مگر شاید اس کیس کی تفصیلات سے بہت کم لوگ آشنا ہیں۔

2018 میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے منی لانڈرنگ تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان کے ایک نامور پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں مختلف اکائونٹس میں 190 ملین پائونڈز کی رقم کا سراغ لگایا جو مبینہ طور پر پاکستان سے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی گئی تھی اور یہ رقم NCA کے مطابق اُسی ملک کو واپس کی جاتی ہے جہاں سے لوٹی گئی ہو۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس رقم کو پاکستان کے قومی خزانے میں منگوایا جاتا مگر یہ رقم سپریم کورٹ کے اُس اکائونٹ میں جمع کرادی گئی جہاں سپریم کورٹ نے پراپرٹی ٹائیکون کو زمینوں کی خریداری میں ہیرا پھیری پر 460 ارب روپے سے زائد کا جرمانہ جمع کرانے کا حکم دے رکھا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس فراڈ کو Cover دینے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ اجلاس میں ایک بند لفافہ لہراتے ہوئے یہ کہہ کر منظوری حاصل کی کہ ’’اس لفافے کو کھولنا اور اس پر بحث کرنا ملکی مفاد میں نہیں۔‘‘ اس طرح 190 ملین پائونڈز کی یہ رقم قومی خزانے میں جانے کے بجائے اُسی پراپرٹی ٹائیکون کے اکائونٹ میں منتقل ہوگئی ،جس نے یہ رقم ملک سے لوٹی تھی۔ بعد ازاں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اس Favor کےعوض 60 ایکڑ زمین، جس کی مالیت اس وقت 7 ارب روپے بنتی تھی، پہلے عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے نام ٹرانسفر کی اور بعد ازاں القادر ٹرسٹ ،جس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں، کے قیام کے بعد اس قیمتی زمین کو زلفی بخاری سے لے کر ٹرسٹ کے نام پر ٹرانسفر کرالیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ اس پورے معاملے میں عمران خان حکومت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر بھی ملوث تھے جنہوں نے سہولت کاری کےعوض پراپرٹی ٹائیکون سے 2 ارب روپے بٹورے جبکہ اس بہتی گنگا سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید بھی مستفید ہوئے جنہوں نے سہولت کاری کے عوض 4 ارب روپے ہتھیائے جس کا انکشاف گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کیا۔ نیب کے پاس اس تمام غیر قانونی کام کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جس کی بنیاد پر نیب نے اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے 190 ملین پائونڈ فراڈ کے کیس کی انکوائری شروع کی اور عمران خان، بشریٰ بی بی، شہزاد اکبر اور پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا مگر کئی مرتبہ طلبی کے نوٹس کے باوجود عمران خان اور دیگر شخصیات نیب میں پیش نہ ہوئیں۔ عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں میں فرق ہے کہ دوسرے سیاستدانوں کو کرپشن کیس میں نیب نے گرفتار کیا تو وہ نیب میں پیش ہوئے، اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگر عمران خان نے 9 مئی کو دہشت گردی کا مظاہرہ کرواکے یہ پیغام دے دیا کہ وہ احتساب سے مبرا ہیں اور ان کے خلاف کسی کارروائی کی ریاست کو بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

190 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا سراغ لگانا برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی سب سے بڑی کارروائی ہے جبکہ اتنی بڑی رقم کی منی لانڈرنگ کی ریکوری پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ،جو ایک آئس برگ کی چوٹی کی مانند ہے۔ اس سلسلے میں جب میں نے برطانیہ کے معروف قانون دان بیرسٹر راشد اسلم سے گفتگو کی تو ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ ’’پاکستان سے لوٹی گئی اس رقم کو قومی خزانے میں جمع کرانا چاہئے تھا نہ کہ کسی کے ذاتی اکائونٹ میں۔‘‘ ایسی اطلاعات ہیں کہ اس اسکینڈل سے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی بھی شدید دلبرداشتہ ہے کہ پاکستان کیسا ملک ہے جس کی لوٹی ہوئی دولت جب ہم نے واپس لوٹائی تو یہ رقم اُسی شخص کے اکائونٹ میں منتقل کردی گئی جس نے پاکستان سے لوٹ کر برطانیہ منتقل کی تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب مستقبل میں نیشنل کرائم ایجنسی پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لوٹانے میں حکومت پاکستان سے تعاون کرے گی۔ عمران خان بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا بیانیہ لے کر اقتدار میں آئے تھے لیکن جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان سے لوٹی ہوئی 190 ملین پائونڈز کی دولت کا سراغ لگایا تو یہ عمران خان کیلئے اپنے وعدے کی تکمیل کا سنہری موقع تھا مگر افسوس کہ یہ وعدہ ان کے لالچ کی نذر ہوگیا۔ عمران خان خود کو ہمیشہ کرپشن سے پاک قرار دیتے آئے اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ پاکستان میں ان کے سوا تمام سیاستدان کرپٹ ہیں مگر القادر ٹرسٹ کیس نے ان کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اب القادر ٹرسٹ کیس کا معاملہ جلائو گھیرائو سے حل نہیں ہوگا بلکہ انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل اور ’’عجب کرپشن کی غضب کہانی‘‘ کے کردار بے نقاب ہو سکیں۔