نیروبی کا ایک اور روپ

July 26, 2023

نیروبی کا جنگل دیکھنےکیلئے ہم صبح پانچ بجے بیدار ہوئے ،یہ جنگل شہر کے اندر واقع ہے اوراِس کا کُل رقبہ 118 مربع کلومیڑ ہے ،یہاں ’بِگ فائیو‘ کے پانچ میں سے چار جانور پائے جاتے ہیں جن میں چیتا، شیر،گینڈااور افریقی بھینسا شامل ہیں جبکہ ہاتھی اِس جنگل میں نہیں ہے،اِس کے علاوہ یہاں زرافہ، ہرن، شترمرغ ،دریائی گھوڑا اور دیگر جانور مل جاتے ہیں۔ نیروبی غالباً دنیا کا واحد شہر ہے جس کے بیچوں بیچ ایک قدرتی جنگل ہے،اگرا ٓپ اِس جنگل کی سیر کریں تو ارد گرد شہر کی عمارتیں بھی نظر آتی ہیں اور جنگل کے اندر موجود جانور بھی۔صبح اٹھنا اِس لئے ضروری ہے کہ یہ تمام جانور سورج طلوع ہونے سے پہلے دکھائی دیتے ہیں ،اس کے بعد جوں جوں دھوپ نکلتی ہے یہ خود کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا لیتے ہیں، اِن میں افریقی چیتے کو دیکھنا سب سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اکثر چھپا کر رکھنا ہی پسند کرتا ہے ۔ہم کُل نو لوگ تھے اِس لئے ہم نے دو گاڑیاں کرائے پر حاصل کیں جن کے ساتھ گائیڈ نما ڈرائیور بھی تھے ۔ صبح ٹھیک چھ بجے ہم نیروبی سفاری پارک پہنچ گئے ، غیر ملکیوں کیلئے اِس کا ٹکٹ خاصا مہنگا یعنی 45 ڈالر کا ہے۔پہلا آدھا گھنٹہ تو خاصی بوریت میں گزرا ، ہمیں کوئی جانور دکھائی نہیں دیا، ڈرائیور نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ پوری کوشش کرے گا کہ ہمیں بگ فائیو تلاش کرکے دکھا دے مگر اِس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ ایسا ضرور ہوگا۔

صبح صبح سردی مزاج پوچھ رہی تھی،درجہ حرارت تو زیادہ نہیں تھا مگر تیز ہوا کی وجہ سے کافی ٹھنڈ لگ رہی تھی،جس وین میں ہم سوار تھے وہ خاص طور پر جنگل سفاری کیلئےتیار کی گئی تھی اِس لئےاُس کی چھت اوپر سے کھلی تھی تاکہ جانوروں کو دیکھنے میں آسانی ہو۔اچانک ہمارے ڈرائیور نے گاڑی آہستہ کی اور ایک جانب اشارہ کیا، پرے ایک گینڈے کی مادہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ، دیکھ کر تسلی ہوئی کہ بگ فائیو میں سے ایک کے درشن تو ہوئے۔کچھ آگے جا کر چند بارہ سنگھے بھی ملے ، ایک آدھ شتر مرغ اور ہرن بھی دیکھا ، اِن تمام جانوروں نے ہماری موجودگی کی بالکل پروا نہیں کی اور اپنے آپ میں مگن رہے۔اِس دوران ہمارےڈرائیور کی عقابی نظریں مسلسل چاروں طرف دیکھتی رہیں ،نظریں تو ہم بھی دوڑا رہے تھے مگر ہمیں کچھ دکھائی نہیں دےرہا تھا ۔ڈرائیور ساتھ ساتھ کسی سے فون پر سواحلی میں بات بھی کر رہا تھا ، یہاں لوگ عموماً انگریزی میں ہی بات چیت کرتے ہیں اِس لئے زبان کا مسئلہ نہیں البتہ سواحلی یہاں کی مقامی بولی ہے ۔بات کرتے کرتے اچانک ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی ، فون پر اُس کی گفتگواب بھی جاری تھی ،ڈرائیور اب ایک خاص سمت میں جا رہا تھا، ہم نے دیکھا کہ چند مزید گاڑیاں بھی اسی طرف بھاگ رہی ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ دس گاڑیاں آگے پیچھے دوڑنے لگیں، ہم نے ڈرائیور سے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ میں کوئی دعویٰ نہیں کرنا چاہتا بس آپ لوگ اپنے کیمرے تیار رکھیں۔کچھ دور جا کر سب گاڑیاں رُک گئیں ، ہم نے دیکھا کہ ایک ببر شیر خراماں خراماں چلتا ہوا جا رہا ہے،گاڑیاں بھی آہستہ آہستہ اُ س کے ساتھ چلنے لگیں تاہم بادشاہ سلامت نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھا اور اپنی واک جاری رکھی۔ہم نے دل میں سوچا کہ ٹکٹ کے پیسے وصول ہوگئے۔ چند منٹ کے فاصلے پر ہمیں مزید شیر مل گئے ، ایک جگہ شیرنی بھی بیٹھی تھی اور اُس سے آگے ایک ببر شیر شتر مرغ کا ناشتہ تناول فرما رہا تھا۔ عموماً میں مظلوم کے ساتھ ہی کھڑا ہوتا ہوں لیکن اُس لمحے نہ جانے کیوں مجھے شیر کایہ انداز پسند آیا ،یہ وہ منظر تھا جو ہم اکثر نیشنل جیوگرافک چینل پر دیکھتے ہیں مگراِس وقت براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

سورج طلوع ہونے تک ہم افریقی چیتے اور بھینسے کے علاوہ کافی جانور دیکھ چکے تھے، ہمیں تھکاوٹ بھی ہو رہی تھی اور مٹی اور گرد سے ہمارا حال بھی برا تھا لہٰذاسب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ہوٹل واپس چلا جائے ،ویسے بھی بادشاہ سلامت کو ناشتہ کرتے دیکھ کر ہماری اپنی بھوک بھی چمک اٹھی تھی ۔نیروبی کے جنگل کی سیر تو ہم نے کر لی مگر وقت کی کمی کے باعث ’مسائی مارا‘ نہ جا سکے،یہ جگہ نیروبی سے تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہے اور کینیا کا اصل جنگل،جو نیشنل جیوگرافک چینل میں دکھایا جاتا ہے ،یہاں پر ہے۔یہ ایک مہنگا تجربہ ہے ، مسائی مارا میں بہت سے ہوٹل ہیں جو آپ کو ایک یا دو دن کا ’پیکیج‘ بنا کر دیتے ہیں جس میں آپ کا ہوٹل میں قیام اور جنگل کی سیر شامل ہوتی ہے، یہ تقریباً ہزار بارہ سو ڈالر کا خرچہ ہے مگر بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ یادگار تجربہ ہے جو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کرنا چاہئے۔نیروبی کےسفاری پارک کو آپ مسائی مارا کا ٹریلر سمجھ لیں، جولائی اور اگست کے موسم میں آپ یہاں ہزاروں کی تعداد میں جانور دیکھ سکتے ہیں جو افریقہ کے علاوہ کہیں اور نہیں مل سکتے۔کینیا میں ہر سال ہزاروں لاکھوں سیاح یہ جنگل دیکھنے آتے ہیں ، اسی لئے پسماندہ ملک ہونے کے باوجود نیروبی کےہوائی اڈے پرآپ کو جہازوں کا رش نظر آئے گا ، جس کی ایک وجہ تو اقوام متحدہ کے دفاتر ہیں اور دوسری وجہ کینیا کے جنگلات۔ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی آپ کو سڑک کے کنارے جانوروں کی تصاویر اور اُن کے مجسمے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں،اسی طرح سوینیر شاپس میں بھی آپ کو جانوروں کی شکل و صورت کے تحائف مل جاتے ہیں، اور تو اور نیروبی میں ایک کیفے کا نام Carnivorous یعنی گوشت خور ہے، اِس کیفے میں بیل کو آپ کی آنکھوں کے سامنے شعلوں پر بھون کے پیش کیا جاتا ہے ۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر آخری تجزیے میں ہمیں نیروبی نے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا، جتنی اِس شہر کی شہرت سنی تھی اُس لحاظ سے اِس شہر میں رونق نام کو بھی نہیں ، ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ تمام غیر ملکی جو نیروبی میں رہتے ہیں اُن کی تفنن طبع کیلئےیہاں کیا انتظام ہے ۔شہر کے مہنگے علاقے بھی دیکھے مگر وہاں بھی وہ بات نظر نہیں آئی جو اپنے یہاں لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ہے۔ دنیا میں جتنے میٹروپولیٹن ہیں وہ اپنی چکاچوند ، رنگین شاموں اور کسی نہ کسی خصوصیت کی وجہ سے مشہور ہیں جس کی وجہ سے وہاں بار بار جانے کو دل کرتا ہے، نیروبی ایسا شہر ہے جس کی سیر ایک مرتبہ ہی کافی ہے ۔یہ شہر ویسے بھی خواہ مخواہ مہنگا ہے اِس لئے اگر آپ کا چھٹیوں میں سیر کرنے کا ارادہ ہو تو بہتر ہے کہ نیروبی کی بجائے کراچی چلے جائیں، نیروبی سے کہیں زیادہ لطف اٹھائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)