مشرق وسطیٰ ،افغانستان سے امریکی انخلاء اور پاکستان

January 22, 2014

عراق میں القاعدہ نیٹ ورک کے شدت پسندوں نے اس کے مغربی صوبے الانبار کے فلوجہ سمیت دوسرے بڑے شہروں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ملک کے دارالحکومت بغداد میں بھی ہر روز درجنوں معصوم لوگ خود کش و دیگر حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ عراق میں القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے امریکہ کے اندر پر زور بحث شروع ہو گئی ہے کہ امریکہ کو وہاں سے اپنی تماتر فوجیں نہیں نکالنا چاہئیں تھیں۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سےاپنی فوجوں کا مکمل انخلاء نہیں کرنا چاہئے۔ اب اگر امریکی فوج کا ایک حصہ افغانستان میں مقیم رہتا ہے تو اس کے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر براہ راست اثرات پڑیں گے۔
القاعدہ اور اس کے حامیوں نے اسلامک ا سٹیٹ آف سیریا اینڈ عراق (آئی سی آئی سی) کے جھنڈے تلے شام کے شمالی صوبے پر تقریباً مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اسی تنظیم نے عراق کے الانبار صوبے کے بڑے شہروں میں بھی اپنی عملداری قائم کر لی ہے۔ یہ تنظیم پورے شام اور عراق کو ایک امارت کے طور پر قائم کرنے کے لئے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں شام اور عراق کی حکومتیں اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر بے بس نظر آتی ہیں۔ یہ منظر نامہ افغانستان میں طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں کیلئے بڑا حوصلہ افزاہے اور ان کے اپنے مستقبل کے منصوبوں کو مرتب کرنے میں ایک بہت بڑا عنصر ہو گا اور وہ پاکستان یا کابل حکومت سے صلح جوئی کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔
امریکہ میں جناب مکین جیسے سینئر سینیٹراوباما حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اوباما نے قبل از وقت عراقی جنگ میںفتح کا شور مچانا شروع کر دیا اور بلا جواز تماتر فوج کو عراق سے نکال لیا۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بغداد حکومت امریکہ کی شرائط پر معاہدہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے امریکیوں کو مکمل فوجی انخلاء کرنا پڑا لیکن عراقیوں کے بہت سے سیاسی گروپ امریکی شرائط تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے۔ امریکہ کی سابق فوجیوں کی تنظیمیں جنھوں نے عراق جنگ میں حصہ لیا تھا اوباما انتظامیہ کی غلط حکمت عملی سے بہت ناراض ہیں۔ الانبار صوبے کے فلوجہ شہر پر قبضہ کرنے کیلئے بہت سے امریکی فوجی مارے گئے تھے اس لئے سابق فوجی سمجھتے ہیں کہاگر القاعدہ دوبارہ اس علاقے پر قابض ہوئی ہے تو ان کی دی گئی قربانیاں رائیگاں گئیں۔
اس وقت شام میں بھی امریکی پالیسی کافی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ اور مغرب کے حمایت یافتہ گروپ آزاد شامی فوج کو القاعدہ اوراس کے حامی گروپوں نے شمال کے ان علاقوں سے باہر نکال دیا ہے جس پر ان کا قبضہ تھا۔ شام میں باغی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔شام کے صدر بشارالاسد علوی ہیں جن کا وہی مکتبہ فکر جو ایران کا ہے۔ اس لئے عراق، لبنان اور ایران سے جنگجو بھی شام میں فرقہ ورانہ جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ امریکی ہر قیمت پر صدر بشار الاسد کو نکالنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن اس صورتحال میں ان کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں روس بھی صدر بشار الاسد کی حکومت کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ غرضیکہ اس چومکھی جنگ میں القاعدہ کا شام کے ایک پورے علاقے پر قبضہ ہو چکا ہے۔عراق میں وزیر اعظم نورالمالکی کی حکومت پر اعتراض ہے کہ وہ اپنے مکتبہ فکر میں میں انتہا پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کے دوسرے مکتبہ فکر کو ناراض کر چکی ہے۔ یہی ناراض مکتبہ فکر القاعدہ کو دوبارہ پاؤں جمانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔امریکیوں کو اب بھی امید ہے کہ نورالمالکی اس ناراض مکتبہ فکر کے ساتھ اتحاد قائم کرلیں گے۔ عراقی فوج نے الانبار میں اس ناراض مکتبہ فکر کے قبائل سے اتحاد قائم کرکے القاعدہ کے خلاف جنگی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس جنگ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے القاعدہ کا عراق کی سیاست سے نکالا جانا اتنا آسان نہیں ہے۔
اس سیاق وسباق میں امریکہ پر یہ واضح ہے کہ اگر اس کی فوجیں مکمل طور پر افغانستان سے نکل جاتی ہیں تو کابل حکومت چند مہینوں یا دنوں کی مہمان ہوگی۔ ملک کے اکثریت حصوں پر طالبان کی مکمل عملداری قائم ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی القاعدہ اور دوسرے جہادی گروپ پھر سے افغانستان کو مرکز بنا کر پاکستان اور علاقے کے دوسرے مسلمان ممالک (وسطی ایشیاء، چین اور روس کے بعض صوبے) میں اپنی کاروائیاں تیز کر دیں گے۔یعنی شام سے لے کر پاکستان تک القاعدہ کے لئے میدان کھلا ہوگا۔ اسی لئے امریکہ کے اندر اوباماانتظامیہ پر افغانستان میں فوج کا ایک حصہ رکھنے کے لئے دباؤ بڑھتا جائے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ صدر حامد کرزئی اور ان کا اندرونی حلقہ امریکیوں کے مکمل انخلاء کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں ہے اور سیکورٹی معاہدے کو موخر کئے جا رہا ہے۔لیکن اگر کوئی سیکورٹی معاہدہ نہیں ہو پاتا تو امریکیوں کا افغانستان سے مکمل انخلاء بھی ناممکن ہے۔
افغانستان سے امریکیوں کا انخلاء کلی ہو یا جزوی ، پاک۔امریکہ تعلقات میں وسعت اور گہرائی کے امکانات موجود ہیں۔ امریکیوں کیلئے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کو محدود کرنے کے لئے پاکستانی فوج کا تعاون ازبس ضروری ہو گا۔ پاکستان کے لئے بھی دہشت گردی اور معاشی بحران سے نپٹنے کے لئے امریکی امداد نا گزیر ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان نوے کی دہائی کی طرح افغانستان میں نام نہاد سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے کے لئے افغان طالبان کی حمایت و معاونت کے حوالے سے در اندازی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر اس حکمت عملی کو ترک کرتے ہوئے اپنے علاقوں سے طالبان اور القاعدہ کی باقیات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
اب علاقے کی صورت حال نوے کی دہائی سے بہت مختلف ہے۔ اب مشرق وسطی کے زیادہ تر ملک خانہ جنگی یا دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ایران اور ایک ملک عرب کی کشمکش علاقے میں پھیلتی ہوئی فرقہ واریت کی جنگ کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے۔ خلیجی ریاستوں کے لئے مصر اور دوسرے عرب ممالک پاکستان سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس لئے مصر کو مستحکم کرنے کے لئے تو فوراً پندرہ بلین ڈالر دے دیئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کو نہیں۔قطع نظر خلیجی ریاستوں کی بے اعتنائی کے، ویسے بھی پاکستان کافی حد تک تنہائی کا شکار ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے حکمرانوں کو بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہوگا اور نوے کی دہائی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔