بلاشبہ پاکستانی نژاد سنگاپوری شہری ڈاکٹر نسیم شہزاد دنیا کی دس سب سے بڑی انجینئرنگ کمپنیوں میں سے ایک کمپنی مائن ہارٹ کے سربراہ ہیں ،جس کے پچپن ممالک میں دفاتر ہیں ، بلاشبہ ان کی کمپنی نے ان پچپن ممالک میں خوبصورت اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی ہیں ،یہ بھی ٹھیک ہے کہ سنگا پور کے سرکاری دورے پر آنے والے غیر ملکی سربراہان مملکت ان کے دفتر کا دورہ کرتے ہیں اور انھیں اپنے ملک میں کام کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے پاکستانی عوام سے ان کے پہلے تعارف کی وجہ جیو کا معروف پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ ہی بنا جس میں ان کی زندگی اور کامیابیوں سے پاکستان کے عوام متعارف ہوئے ، لیکن گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں ان کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اوران پر اور ان کے کاروبار پر الزامات عائدکئے جارہے ہیں وہ قابل افسوس ہیں جو پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کوروکنے اور انکی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کردار کشی کی مہم میں ان کے صاحبزادے کو جن کا اس منصوبے سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا کوبھی ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ۔ قابل افسوس امر یہ بھی ہے کہ پوری مہم میں کہیں بھی ان کا موقف شامل نہیں کیا گیا ، تاہم گزشتہ روز پہلی دفعہ ان کا موقف منظر عام پر آیا تو مزید حیرانی ہوئی کہ حقائق کے برخلاف ان پر سنگین الزامات عائد کئےجاتے رہے یعنی ہمارے ملک میںبعض لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا کی آزادی کا جتنا منفی استعمال کر رہے ہیں پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ،ڈاکٹر نسیم شہزاد اور ان کی کمپنی پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے کراچی میں کریک مرینا کے نام سے فلیٹوں کی تعمیر کے نام پر ڈھائی سو خریداروں سے انتیس ارب روپے وصول کئے، منی لانڈرنگ کے ذریعے وہ پیسے باہر بھجوادیئے اور عوام کو فلیٹ فراہم نہیں کئے۔اس حوالے سے ڈاکٹر نسیم شہزاد کا جو موقف اخبار میں شائع ہوا ہے اس کے مطابق کریک منصوبے کے ڈھائی سو فلیٹوں کی فروخت سے صرف تین اعشاریہ آٹھ ارب روپے آج تک حاصل ہوئے ہیں جبکہ منصوبے کی تعمیر پر ہمارے اب تک نو ارب روپے سے زائد کے اخراجات آچکے ہیں اور اس وقت تین سو سے زائد فلیٹوں پر مبنی تین بلند و بالا ٹاورز کریک مرینہ کی زمین پر تعمیرشدہ حالت میں کھڑے ہیں جس کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور اس وقت تک ہمارے چھ ارب روپے سے زائد اس منصوبے پر خرچ ہوچکے ہیں لہٰذا ہم اپنی اتنی بڑی رقم خرچ کرکے کیوں عوام کو فلیٹ نہیں دیں گے، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک سازش کے تحت کام کرنے سے روکا جارہا ہے ، جہاں تک منصوبے کی شروعات کا تعلق ہے تو آغاز میں ڈی ایچ اے نے ہی ان کی کمپنی کی عالمی شہرت سے متاثر ہوکر ان سے رابطہ کیا اورباقاعدہ معاہدے کے تحت انھوں نے منصوبے کا آغاز کیا ، اور اس وقت بھی تین سو فلیٹوں سے زائد پر مبنی تین بلند و بالا ٹاورز کریک مرینہ کی زمین پر قائم ہوچکے ہیں جو مجموعی منصوبے کا تیس فیصد ہیں یعنی ڈھائی سو فروخت شدہ فلیٹوں سے پچاس زیادہ فلیٹ تیار حالت میں کھڑے ہیں جبکہ نو سو فلیٹس کی تعمیر کا بنیادی کام بھی مکمل ہوچکا ہے ، لیکن کچھ سرکاری ادارے اور مخالفین انھیں یہ منصوبہ مکمل کرنے میں جان بوجھ کر مشکلات پیدا کررہے ہیں تاکہ منصوبہ منسوخ کرایا جائے ،ڈاکٹرنسیم شہزاد کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ڈھائی سو فلیٹوں کا نہیں بلکہ اربوں روپے مالیت کی اس اکیس ایکڑ زمین کا ہے جو ان کی کمپنی کے نام پر لیزڈ ہے جس میں ابھی نو سو فلیٹ تعمیر ہونا ہیں، ڈاکٹر نسیم شہزاد نے آخر میں وزیر اعظم ، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ ان کے مسئلے پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کراکےانہیں انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ یہ منصوبہ مکمل کرکے خریداروں کے حوالے کرسکیں ، ورنہ پوری دنیا میں یہ پیغام جائے گاکہ پاکستان میں پاکستانی سرمایہ کار محفوظ نہیں ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کار کیوں یہاں سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے ؟