بلاول بھٹو زرداری، پنجاب سے سندھ فیسٹیول تک!

January 29, 2014

بلاول بھٹو زرداری ، کیا ملک میں کوئی ایسی دوسری طاقتور آواز موجود ہے؟ کوئی ایسا نظریاتی سالار جس کے ہاں پاکستان کے ریاستی نظام اور پاکستانیوں کے طرز ِ زندگی کے حوالے سے کوئی کنفیوژن موجود نہ ہو؟ کیا کسی کے لہجے میں، زندگی موت کے فیصلے اور اختیار کے معاملے میں خالق کائنات پر یقین کی وہ کیفیت دکھائی دیتی یا محسوس ہوتی ہے؟ کیا طالبان کی نفی اور ان کے ساتھ مکمل ایقان و ایمان کے ساتھ مکمل فیصلہ کن جنگ کے لئے کوئی دوسری ایسی شخصیت یا جماعت موجود ہے جو پاکستانیوں کے اندر مذہبی جنونیت کے اس میدانِ کارِزار میں اپنا سب کچھ د ائو پر لگانے کا بے ساختہ رزمیہ جذبہ پیدا کردے؟ کیااس ایک آواز کے سواکوئی دوسرا ایسا پیغامبر نظر آرہا یا سنائی دے رہا ہے جس کے لفظ پاکستانیوں کو ذہنی پژمردگی اور لاتعلقی کا چولا اتار پھینکنے پر مجبور کردیں؟ کیا کہیں سے کوئی دوسری ایسی صدا تمہاری سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے جس میں زندگی کی صبحیں، دوپہریں، شامیں اور راتیں، یوں کہو پوری زندگی اپنے پورے رنگوں کے ساتھ رقص کر رہی ہو؟ قطعی طورپر پاکستان میں ایساکوئی دوسرا سالار، ایسی کوئی دوسری آواز اور ایسے کسی دوسرے پیغامبر کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس نے پہلے قدم پہ ہی ساری کشتیاں جلا کے ساحل مراد پر پہنچنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اپنے سامنے رکھا ہی نہیں، اس انسانی کہکشاںمیں سب سے روشن ستارے کے طور پر بلاول بھٹوزرداری کے وجود کااعتراف انصاف کا حسن ہوگا۔
فروری میں پنجاب میں بلاول بھٹو زرداری کی آمد متوقع ہے۔ پنجاب کی فضائیں ابھی سے پاکستان پیپلزپارٹی کی اس نظریاتی ساخت کی ٹھنڈی ہوائوں اور شیریں بولوںسے جاگ پڑی ہیں، 1967میں جس کی نوبت کبھی بجائی گئی تھی۔ مئی 2013 کے قومی انتخابات کے بعد مخالف بازیگروں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی ’’قومی موت‘‘ کےموضوع پر اپنی ذہنی فطرت کے عین مطابق تھیوریوں کی سوغاتیں بانٹنا شروع کیں۔ ایک کا تعلق تحریک ِ انصاف کی ڈھولک بجانے سے تھا۔ پنجاب کے چاروں کھونٹ پیپلزپارٹی کے ووٹ اکائونٹ کے تحریک ِ انصاف کے ووٹ بنک میں منتقل ہونے کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ووٹر کی ناراضگی کو اپنی سیاسی غربت کے لئے سیاسی اقتصادیات قرار دے دیا گیا۔ یہ غلط تھا، صرف گزرے آٹھ ماہ میں یہ غلطی طے ہوچکی ہے۔ پیپلزپارٹی اور عوام،دونوں اپنی اپنی پوزیشنوں پر واپس، ایک دوسرے کی جانب نگراں ہیں!
پاکستان پیپلزپارٹی کے تناظر میں حریف بازیگروں کے سیاسی تجزیئے کبھی درست ثابت نہیں ہوئے۔ تاریخی ریکارڈ کی تصدیق موجود ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ کی سیاسی فوقیت اور تحریک ِ انصاف کی چوکھٹ کے لئے عوام کی ’’سیاسی آرزو‘‘ جیسی نادر روزگار تھیوریاں بھی نظریاتی خامیوں اورعملی حقائق کے ادراک سے محرومی کا شاہکار ہیں۔ ’’ن‘‘ لیگ اور ’’تحریک ِ انصاف‘‘ یہ دونوں سرمایہ دار، جاگیردار، ریٹائرڈ ریاستی حاکمیت کے خوگر طبقے، اپر کلاس، چٹ کپڑیئے مافیاز اور جدید ٹیکنالوجی کےامیروں اور شہزادوں کی جماعتیں ہیں۔ ان کی فکری کیمسٹری میں دھرتی کے عوام کی حاکمیت کے فنومنے کی پیدائش ہی نہیں ہوسکتی۔ یہ انتہا پر جا کے بھی Status co کو ذرا ترتیب دے سکتی ہیں تاکہ ان طبقات کے شدیدبے رحم استحصالی کلچر کو ایک متوازن عمل پذیری کی صورت دی جاسکے۔ یہ بزنس مینوں، صنعتکاروں کو مستقل طور پر سہارا دینے والے ستون ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی دھرتی کا بطن ہے، یہ غریب عوام کی دلی ایمانیات کامظہر ہے، پیپلزپارٹی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور پرائیوٹائزیشن کی دشمن ہے۔ عوام نے ایک بار کی ناراضگی میں پارٹی کے بیلٹ باکس کی طرف رخ نہیں کیا، کافی حد تک ایسا ہی ہے لیکن یہ بیلٹ باکس غریب عوام کی ملکیت ہے، چنانچہ ابھی تقریباً صرف آٹھ ما ہ ہی گزرے ہیں عوام اپنے اس بیلٹ باکس کو غیروں سے چھین کر اپنے گھروں میں واپس لانا شروع ہوگئے ہیں۔پنجاب میں یقیناً نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ سندھ میں پارٹی کی مضبوطی اس کی صوبائی قیادت کی مضبوطی کا نتیجہ ہے۔ پنجاب قریب قریب 30برس سے بلاواسطہ (زیادہ تربلاواسطہ) اور بالواسطہ شریف خاندان کےقبضے ہی میں نہیں بلکہ محض اس صوبے پر حکمرانی کے باعث ہی انہیں پاکستان پر حکمرانی کا راستہ ملا ہوا ہے البتہ قومی دانشوروں کو اس ناقابل تردید سچائی کاسامنا کرنا چاہیے کہ 90ء کے انتخابات ہوں، 1997یا 2013کی دوتہائی اکثریت کے ادوارہوں، ’’ن‘‘ لیگ قومی جمہوری حکمرانی کے ایوان میں ہمیشہ ’’مشکوک منتخب حکومت‘‘ ڈکلیئر ہوئی، آج بھی 2013کے انتخابات اس کی حکمرانی کا De-Valid منظر دوہرا رہے ہیں! پارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت میں صرف میاں منظور وٹو ہی ایک متحرک شخصیت رہ گئے ہیں۔ الجھن مگر وہی ہے منظور وٹو ڈیرے داری، دھڑے بندی، جوڑ توڑ، ڈرائنگ روموں اور مستعمل مفاداتی بندھنوں کی سیاسی حرکیات کا عنصر ہیں۔ صوبے کو پیپلزپارٹی کا نظریاتی رہنما درکارہے۔
پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے اس بحران پر بلاول بھٹو زرداری کی نگاہ ہے، انہیں اس کا سوفیصدادراک ہے۔ بلاول کے ذاتی دوستوں میں زیادہ تر پنجابی ہیں۔ حا ل ہی میں انہوں نےجناب بشیر ریاض، فواد چودھری، غضنفر گل، مسعود کوثر، جہانگیر بدر، جمیل سومرو اور ہشام ریاض کو اپنی مشاورتی کونسل کے مرکزی ارکان نامزدکیاہے۔ مشاورتی کونسل میں بھی اکثریت پنجابی قومیت کی ہی ہے۔ ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کے سیاسی ڈاکٹرائن میں مستقبل میں پنجاب ہی پارٹی کا مستقل Base ہوگا جیسا کہ 1967میں اس صوبے نے اپنی ’’لبیک‘‘ اس جماعت کو معنون کردی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اوربی بی شہید نے اپنے اپنے عہد میں پنجاب میں مستقل ٹھکانہ نہیں بنایا۔ آصف علی زرداری نے، پنجاب ہی مستقل Base ہے، کے پیش نظر پنجاب میں گھر بنا کے عملی طور پر یہی اعلان کیاہے۔ بلاول کارجحان سوشلزم کی طرف ہے جس کا اسلام سے ہرگز کوئی تضادنہیں، بلاول کی نظریاتی ترکیب میں اسلام کےدائرے میں عوام کی فلاح اور عزت کا قیام اس کا نصب العین ہے۔ پارٹی کو پنجاب میں اس وقت ایسے متحرک بائیں بازو کی ناگزیر ضرورت ہے جو پاکستان کے عوام کو اسی نظریاتی پناہ گاہ میں واپس لے جائےجہاں خدا کادین لوگوں کے دلوں کا ایمان ہوتا اور ظلم و استحصال کے گروہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں!
بلاول بھٹو زرداری کو شاید قومی میڈیا کے محاذ پر سب سے زیاد ہ عرق ریزی سے کام لینا ہوگا۔گزرے پانچ برسوں میں اس پس منظر میں بھٹو خاندان ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کو بدترین بدصورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی قیادت نے قومی میڈیا کا محاذ ڈاکٹر قیوم سومرو کے سپرد کررکھا تھا۔ افسوس وہ اس محاذ پرالمناک حد تک ناکام ہی نہیںرہے قومی اورصوبائی سطحات پرپیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے نظریاتی پہلو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
بلاول پنجاب میں ’’سندھ فیسٹیول‘‘کے تاریخی اورثقافتی اثاثے کے اسپ تازی پر سوار آئیں گے۔ یہ فیسٹیول ایسالگتاہے کسی نے 60ء، 70ء کی دہائی کے پاکستان کو پکارا ہے۔ فیسٹیول پر بلاول کے پیغام کا ایک حصہ پڑھتے جایئے!
بلاول نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا: ’’یہ فیسٹیول ہمارے ثقافتی مراکز کی جانب پہلا قدم بھی ہے۔ اگر چند درندے دنیا میں پاکستان اور اس کے لوگوں کو بدنام کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے ہار مان کر خود کو حالات کے حوالے کردیں۔ حکمرانوں، تعلیمی اداروں، علما اور مدارس نے سچ نہیں بولا، مطالعہ پاکستان کے نام پر غلط تاریخ پڑھائی گئ، اسلامیات کے نام پر مذہب کا چہرہ بدل دیاگیا، پتھر کے زمانے کی دہشت کو تہذیب بنا کر وہ عوام کواپنے جیسا جنگلی بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم پانچ ہزار سال پہلے بھی اتنے مہذب تھے جتنے وہ آج بھی نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم خود کو بھول جائیں۔وہ ہمیں جھکانا چاہتے تھے ہم نہیں جھکے، وہ ہمیں دبانا چاہتے تھے ہم نہیں دبے۔ وہ ہمیں توڑنا چاہتے تھے لیکن وہ ناکام ہوئے تو انہوں نےہم پر حملہ کردیا۔ لفظوں کی گولیاں برسانے والوں نے ہم پر بموں کی بارش کر دی۔ ہمارے پاس ہنرہے۔ محنت کرنا بھی جانتے ہیں اورہمیں مسکرانا بھی آتا ہے۔ تحریک ِطالبان ختم کردیں ملک سے پولیو ختم ہو جائے گا۔ ڈرون حملے رک جائیں گے، دہشت گردی ختم ہو جائے گی، اب طالبان کے خلاف متحد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
کیا پاکستان کی دھرتی سےکوئی ایسی دوسری آواز آپ سن رہے ہیں؟آواز، جس کی سچائی پہ فطرت کے عناصر بھی جھوم رہے ہوں گے!