کیا یہ جادوگر بھی دھوکا دیتا ہے

February 07, 2014

مغربی دنیا میں آج کل ایک جادوگر نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے شعبدہ باز کہہ لیں۔ اس کا تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ وہ اطمینان سے ٹہلتا ہو ا لندن کے مشہور و معروف دریائے ٹیمز میں اتر گیا اور پانی پر چلنے لگا۔لوگ سارے کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگے ، موٹر گاڑیاں رُک گئیں ، یہاں تک کہ پولیس آگئی۔ برطانیہ میں ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا جرم ہے ۔ اس جادوگر کا نام اگر آپ نے پہلے نہیں سنا تو اب سن لیجئے۔ یہ لڑکا ڈائنیمو (ڈائی۔نے ۔مو)کے نام سے دنیا بھر میں اپنے حیرت انگیز کارناموں کے ڈنکے بجا رہا ہے۔وہ کیا کرتا ہے، اس کا کیا راز ہے، کیا یہ واقعی جادو ہے یا نظر کا دھوکا ہے یا کسی طرح کی شعبدہ بازی ہے،کوئی نہیں جانتا۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے،لوگوںکو وہی نظر آنے لگتا ہے۔ آنکھیں دھوکا کھاجائیں مگر ٹیلی وژن کے کیمروں کو کیا ہو جاتاہے، انہوں نے بھی اس شخص کو ہوا میں بلند ہوتے دیکھااور نہ کہیں کوئی چال نظر آئی نہ کوئی فریب۔ہماری طرف لوگ راہ چلتے لوگوں کے موبائل فون چھین لیتے ہیں۔ ڈائی نے مو نے ایک راہ گیر سے اس کا موبائل فون چھینا نہیں بلکہ مانگا اور سب کی نظروں کے سامنے فون کو ایک تنگ منہ والی بوتل میں ڈال کر وہ بوتل فون کے مالک کے حوالے کرکے چلتا بنا۔ لوگ بہت دیر تک بوتل کو ہلاتے رہے ۔ فون اس کے اندر بجتا رہا آخر بوتل توڑکر فون نکالا گیا۔
مختصر سی بات یہ ہے کہ اس شعبدہ باز کے کرتبوں میں جو نظر آتا ہے وہ حقیقت ہے نہیں۔ اس کے پیچھے اصل میں کیا ہے، وہ ہمیں بتاتا نہیں۔شاید وہ ہم دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ کبھی کسی نے اس کا گریبان پکڑ کر یہ نہیں کہا کہ تم کیا چال چلتے ہوِ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس جادوگری میں کچھ ایسا لطف ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوں نہیں ہے، ہم مان لیتے ہیں کہ یوں ہی ہے۔
بس۔ بالکل، مکمل طور پر، عین یہی معاملہ پاکستان کا ہے۔ جو نظر آرہا ہے وہ حقیقتاً نہیں ہے۔ پس منظر میں کہاں کون سا مہرہ چلا جارہا ہے، ہمیں خبر نہیں۔ کس کی ڈوری کس کے ہاتھ میں ہے ، ہم نہیں جانتے۔ جن کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے وہ اگلی چال کیا چلیں گے، کسی کو نہیں معلوم۔ وہ مسلسل کہے جائیں گے کہ سب ٹھیک ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ وہ چاہیں گے کہ ہمیں سب اچھا اچھا نظر آئے، اور عجب بات یہ ہے کہ ہمیں اچھا اچھا ہی دکھائی دے گا۔ ایک سیاست دان نے ایک بار کہا کہ میں اگر بر سرِاقتدار آگیا تو وعدہ کرتا ہوں کہ قوم کو سب کچھ سچ سچ بتایا کروں گا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ وہ بر سرِ اقتدار نہیں آیا۔ جو آیا اس کا ماضی بھولنے میںہمیں دو دن بھی نہیں لگے۔ معیشت کا اس نے کیا حال کیا تھا، اب ہمیں یاد نہیں۔ معیشت کا وہ اب کیا حال کر رہا ہے، اس کا حال بالکل ڈائی نے مو کے شعبدوں جیسا ہے۔ ہمیں خبر ہے کہ چھاپہ خانہ دن رات نوٹ پر نوٹ چھاپے جا رہا ہے لیکن جو وہ کاغذ کا پرزہ ہمارے ہاتھ میں آتا ہے تو ہم اسے اصل نوٹ سمجھتے ہیں۔ قرض پر قرض لئے جارہے ہیں ، ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا بال بال قرض میں بندھا ہے۔ ماں اس حقیقت سے بے خبر بچے کے بال سنوارے جارہی ہے۔اس کے رخسار پر کالا تل بھی لگا رہی ہے کہ اس کو کسی کی نظر نہ لگے۔ خوف ہے تو یہی کہ نظر لگنے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اخبار میں ہر صفحے پر ایک ہی سرخی نظر آتی ہے کہ پاکستان پر اتنا نازک وقت کبھی نہیں پڑا۔ اس سرخی کو چھپتے چھپتے اب ستّر سال ہونے والے ہیں۔ ایسے سرخیوں کے بال سفید ہو چلے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لوگ اس خرابے کا حل بھی بتا رہے ہیں۔ بہت آسان حل ہے ، قائد اعظم کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہی سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔اس سے بھی زیادہ آزمودہ اور تیر بہدف علاج بھی تجویز کیا جا رہا ہے کہ شریعت کی راہ پر چلنا ہی سارے مسائل کا حل ہے۔ اب کوئی کہے کہ چلئے، شوق سے چلئے، کس نے روکا ہے۔ چلئے اور سارے دکھ دور کیجئے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس راہ پر چلنا ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے، تو پھر لوگ باقی سارے کام دھندے چھوڑ کر اس راہ پر کیوں نہیں چل پڑتے۔ کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ پوری قوم ایک صبح اٹھے اور کام پر جانے کے بجائے کسی کے دکھائے ہوئے راستے پر روانہ ہو جائے۔
ویسے یہ الگ بات ہے کہ سارے دکھوں کا حل واقعی کسی صبح اٹھ کر چل پڑنے ہی میںہے۔ ساری تکلیفوں کا علاج اسی روانگی کی گھڑی میں ہے۔ اس کا راز اُسی ایک صبح میں مضمر ہے کہ جس لمحے ہر گھر کا دروازہ کھلے گااور اس میں سے حق وصداقت اور انصاف و مساوات کا نعرہ لگاتے ہوئے لوگ نکلیں گے اور اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک منزل کے حصول کا آفتاب روشن نہ ہو جائے اور نجات کے پھریرے وقت کی تیز ہوا میں سر اٹھا کرپھڑپھڑانے نہ لگیں۔
سچ ہے۔ اب ہمارا گزارہ خوابوں ہی پر ہے۔ جی بہلانا جو ٹھہرا۔
معاف کیجئے، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ وہ ڈائی نے مو کا قصّہ ادھورا ہی رہ گیا۔ہوا یہ کہ جب وہ نو عمر لڑکا تھا اور اسکول جاتا تھا، خدا جانے کیوں کچھ لڑکے اس کے دشمن ہو گئے۔ وہ اس کو بڑے سے ٹین کے ڈرم میں بند کرکے اونچائی سے لڑھکاتے تھے۔ ڈائینیمو ہر بار صحیح سلامت نکل آتا تھا۔ اس پر لڑکے اور زیادہ جلنے لگے اور اس کا جینا حرام کردیا، یہاں تک کہ اسے نفسیاتی بیماری لاحق ہوگئی اور اسے اسپتال میں چھ مہینے گزارنے پڑے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ یہاں سے مر کر ہی جائے گا۔ اس کے دادا نے کہا کہ میری بڑی تمنّا ہے کہ تم جادوگر بن جاؤ۔ ڈائینیمو کا کہنا ہے کہ اس کا جی چاہا کے دادا کی خواہش اس طرح پوری کرے کہ دادا اس پر ناز کریں۔ برطانیہ میں ایسے نوجوانوں کو ہر قسم کی مدد دینے کے لئے شہزادہ چارلس کا قائم کیا ہوا ایک ادارہ ہے جو پرنسز ٹرسٹ کہلا تاہے۔ ادارے والے حیران تو ہوئے کہ ان کے پاس ایک ایسا لڑکا آیا ہے جو جادو گر بننا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر ہنسے نہیںحالانکہ ان کے علاوہ جو بھی سنتا تھا قہقہے لگاتا تھالیکن انہوں نے ڈائینیمو کی نفسیاتی دیکھ بھال شروع کی، اس کا حوصلہ بڑھایا، مشورے دئیے۔ یہی نہیں، اسے کام شروع کرنے کے لئے کچھ رقم بھی دی۔
آج اسے ٹرسٹ کے سفیر کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ یہ ٹرسٹ ہر سال ان ہزاروں لڑکوں لڑکیوںکی مدد کرتا ہے جو عمر کے اُس مرحلے میں ہوتے ہیں جہاں ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ وہ بے روزگار ہوتے ہیں، ذہنی دباؤ کے شکار ہوتے ہیں اور اکثر بے گھر ہوتے ہیں۔ اب رہ گئے مسٹر ڈائینیمو، وہ ٹیلی وژن کی ہردلعزیز شخصیت ہیں، ان کے شو ہو رہے ہیں، سیریز چل رہی ہیں۔ لوگ سارے کام دھندے چھوڑ کر ان کی شعبدہ بازی دیکھتے ہیں اور بقول شخصے دانتوں تلے انگلیاں دباتے ہیں۔
ہماری زندگی میں صبح شام کتنے ہی ایسے مقام آتے ہیں جب ہم بھی دانتوں تلے انگلیاں دباتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ یہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ہم نے اپنی زِمام دی ہے، جو بظاہر سمجھ دار بھی ہیں، کیا کررہے ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ کہانی کس موڑ پر جا پہنچی ہے اور اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا یہ کہانی اس جملے پر ختم ہوگی کہ جیسے خدا نے ان لوگوںکے دن پھیرے، سب کے پھیرے۔ یا یہ قصہ اس آسمانی مقولے پر ختم ہوگا کہ جو لوگ خود اپنی حالت نہیں بدلتے، وہ اوپر والا بھی ان کی طرف سے اپنی آنکھیں موند لیتا ہے۔