ملکی معیشت کو درپیش کثیرالجہتی چیلنجز کا جائزہ

January 14, 2024

عبدالستار بابر، سی ای او Ipsos پاکستان

حالیہ برسوں میں، پاکستان کو شدید چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جس نے قوم کی برداشت کا امتحان لیا ہے۔ سیاسی منظر نامہ انتشار کا شکار رہا ہے، جس سے مختلف شعبوں میں عدم استحکام کی لہریں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، اقتصادی میدان بدحالی کا شکار ہے، جو پہلے سے ہی پیچیدہ صورتحال کو بڑھا رہا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں۔ نتیجتاً، اثر شدید طور پر محسوس کیا گیا ہے، جس سے آبادی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور گھریلو بجٹ پر دباؤ ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے، جس نے پہلے سے ہی کمزور معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

آمدنی کی کم پیداوار اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان عدم توازن شہریوں اور کاروباری اداروں میں ٹیکس جمع کرنے میں یکساں طور پر ہچکچاہٹ کا باعث بنا ہے۔ یہ ہچکچاہٹ موجودہ ٹیکس کے فرق کو مزید وسیع کرتی ہے، جس سے حکومت کی محصولات وصولی کی کوششوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان یہ فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے، جس سے ملک کی مالیاتی صحت متاثر ہو رہی ہے اور پائیدار ترقی کے اقدامات میں رکاوٹ ہے۔

ان کثیر جہتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات کے سلسلے کو تقویت دینے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔

ان پیچیدہ چیلنجوں کے درمیان، مارکیٹ ریسرچ میں معروف عالمی ادارے Ipsos نے پاکستان کے معاشی منظر نامے کی پیچیدگیوں کو جاننے کے لیے ایک وسیع کوشش کا آغاز کیا۔ اس جامع مطالعہ نے اپنے تحقیقاتی جال کو پانچ اہم شعبوں تک پھیلایا، جو ملک کے اقتصادی منظرنامے کو نمایاں طور پر تشکیل دیتے ہیں: رئیل اسٹیٹ، سگریٹ، ٹائر اور لبریکنٹس، دواسازی اور چائے۔

اس وسیع مطالعہ میں تمباکو کے شعبے کو نمایاں کرنے کا انتخاب دانستاً کیا گیا تھا، جس کی وجہ معیشت پر اس شعبے کا اثر و رسوخ اور پیچیدہ حرکیات تھا۔ یہ شعبہ اپنے اندر وسیع تر معاشی رجحانات اور چیلنجوں کی عکاسی کے طور پر کام کرتا ہے، یہ ایک مثالی عینک ہے جس کے ذریعے ٹیکس چوری جیسے اہم مسائل کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

سگریٹ، ایک اہم اور بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے والی اشیاء میں شامل ہونے کی وجہ سے، پاکستان کے معاشی دائرے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو ملکی صنعت کے دو پہلوؤں یعنی قانونی طور پر تیار ہونے والی برانڈز جو ٹیکس ادا کرتی ہیں اور دوسری غیرقانونی فروخت ہونے والی مصنوعات، جو ہماری صنعت کی پیچیدگیوں کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔ قیمتوں کے سخت ضابطوں کے باوجود، قانونی شعبہ غیر قانونی منڈی کے وسیع و عریض پھیلاؤ کے بالکل برعکس کھڑا ہے، جس سے ایک ایسا تضاد پیدا ہوتا ہے جسے قریب سے جانچنے کی ضرورت ہے۔

تمباکو کے شعبے میں یہ اہم مطالعہ نہ صرف پائے جانے والے غالب رجحان بلکہ ٹیکس چوری کی پیچیدگیوں کو بھی واضح کرتا ہے، جو اس صنعت کے ریگولیٹری فریم ورک کی پابندی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان خامیوں سے پردہ اٹھاتی ہے، جو ملکی محصولات کے نقصانات کو بڑھاتی ہیں۔ اس شعبے کے اندر موجود باریکیوں کو سمجھنا وسیع تر معاشی منظر نامے، پالیسی سازوں اور شراکت داروں کو باخبر فیصلے کرنے اور اس مشکل وقت سے نمٹنے کے لیے ضروری اسٹریٹجک مداخلتوں کی طرف رہنمائی کرنے کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کرسکتا ہے۔

پاکستان کے اندر سگریٹ کی غیر قانونی مارکیٹ متعدد شکلوں میں پائی جاتی ہے، جس میں مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری شدہ برانڈز، اسمگل شدہ برانڈز اور جعلی برانڈز شامل ہیں۔ غیرقانونی مارکیٹ کی وسیع پھلتی پھولتی نوعیت کے مقابلے میں قانونی شعبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ غیر قانونی دائرہ کے اندر مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز موجود ہیں، جو 127.44 روپے کی کم از کم قانونی قیمت کی تعمیل کرتے ہیں لیکن ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ مزید برآں، اسمگل شدہ برانڈز میں ان کے تیار ہونے کے ملک اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ جعلی برانڈز، جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے انھیں لاگت میں اضافے کا سامنا ہے۔

تمباکو کے شعبے میں موجودہ منظرنامے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فروری 2023 سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) میں 150فی صد کا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جو ملک بھر میں اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ موافق ہے۔ اس کے باوجود، کم از کم قیمت کا نفاذ اور ایک جامع ٹریک اور ٹریس سسٹم کے نفاذ کا فقدان ہے، جس سے غیر قانونی برانڈز کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔

زیادہ قیمت والے جائز برانڈزکے کاروبار میں کمی اور ناجائز ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز میں یہ اضافہ قومی خزانے کو سالانہ تقریباً 300 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ جب بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے غیرقانونی شعبہ کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کیا جائے گا، قوم صرف تب ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔

آگے بڑھنا ایک کثیر جہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جو سامنے آنے والے چیلنجوں کی پیچیدگی کو تسلیم کرتی ہے۔ کم از کم قانونی قیمت کا سختی سے نفاذ اس شعبے میں ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز کے پھیلاؤ کو روکنے میں ایک بنیادی ستون کا کام کرتا ہے۔ قیمتوں کے تعین کے ضوابط کی سختی سے پابندی ایک اہم رکاوٹ کے طور پر کام کرتی ہے، جو مارکیٹ میں منصفانہ مسابقت کی حفاظت کرتے ہوئے غیر قانونی اداروں کو حاصل ہونے والے ناجائز فائدہ کو روکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی، ایک منصفانہ ازسرِ نو جائزہ لینے اور مالیاتی اقدامات میں ردوبدل، تعمیل کرنے والے اداروں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک راستہ پیش کرتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات یکساں مواقع فراہم کرنے میں مدد اور صحت مندانہ مسابقت کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دیتے ہوئے جائز کاروباروں پر غیر ضروری دباؤ کو کم کرتے ہیں۔

یکساں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے جامع نفاذ میں انضباطی نگرانی کو مضبوط بنانے کا اہم کردار ہے۔ یہ نظام موجودہ خلا کو مؤثر طریقے سے پُر کرے گا، ٹیکس چوری کے راستوں کو نمایاں طور پر کم کرے گا اور سب کے لیے سخت انضباطی تعمیل کو یقینی بنائے گا۔

یہ کثیر الجہتی حکمتِ عملی نہ صرف تمباکو کے شعبے کے لیے ناگزیر ہے بلکہ اس کے بڑے پیمانے پر معیشت پر وسیع اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط بنانے، غیر قانونی طریقوں کو روکنے، اور پائیدار ترقی اور تعمیل کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے کے لیے ایک مخلصانہ کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔

قیمتوں کے ضوابط کا نفاذ، مالیاتی بحالی، اور ایک جامع ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذجیسے اہم پہلوؤں کو احتیاط سے حل کرتے ہوئے، آگے بڑھنے کا راستہ ایک زیادہ منظم، منصفانہ، اور مضبوط تمباکو کی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اقتصادی استحکام اور سالمیت کے قومی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔

پاکستان کے معاشی منظر نامے کو آگے لے کر جانا اجتماعی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ غیر قانونی سگریٹ کے کاروبار میں اضافےکو روکنے سے نہ صرف معاشی سالمیت کو تحفظ حاصل ہوگا بلکہ اس سے ملک کی مالی صحت کو بھی بحال کیا جاسکے گا۔

حکام، اسٹیک ہولڈرز، اور بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان تعاون، تمباکو کے شعبے کو چلانے اور اس کے نتیجے میں، معیشت کو تعمیل اور استحکام کی طرف لے جانے میں سب سے اہم ہے۔