کیا الیکٹرک ہوائی جہاز کا تصور حقیقت کا روپ دھار ہا ہے؟

November 21, 2022

الیکٹرک کار عام ہونے کے بعد الیکٹرک طیارے بھی مستقبل میں اڑتے نظر آسکتے ہیں۔ دو سیٹوں والے ویلس الیکٹروس (Velis Electros)پہلے ہی پورے یورپ میں چکر لگا رہے ہیں، برٹش کولمبیا میں سمندری الیکٹرک طیاروں کا تجربہ کیا جا رہا ہے جبکہ بڑے طیارے بھی آ رہے ہیں۔ ایئر کینیڈا نے 15ستمبر 2022ء کو اعلان کیا کہ وہ سویڈن کے ہارٹ ایرو اسپیس سے 30الیکٹرک ہائبرڈ علاقائی طیارے خریدے گا، جس سے توقع ہے کہ 2028ء تک اس کے 30 سیٹوں والے طیارے سروس میں ہوں گے۔

یو ایس نیشنل رینیوایبل انرجی لیب کے تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ 50 سے 70 سیٹوں والا پہلا ہائبرڈ الیکٹرک مسافر طیارہ اس کے کچھ عرصے بعد تیار ہو سکتا ہے جبکہ 2030ء کی دہائی میں برقی ہوا بازی واقعی شروع ہو سکتی ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کے انتظام کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 3فیصد ہوا بازی سے ہوتا ہے اور آبادی میںاضافے کے ساتھ ساتھ زیادہ مسافروں اور متوقع پروازوں کے ساتھ 2050ء تک ہوا بازی تین سے پانچ گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کر سکتی ہے۔

ایوی ایشن کو بجلی فراہم کرنا مشکل کیوں؟

ایرو اسپیس انجینئر اور اسسٹنٹ پروفیسر گوکچن سینار یونیورسٹی آف مشی گن میں پائیدار ہوا بازی کے تصورات تیار کرتی ہیں، بشمول ہائبرڈ الیکٹرک طیارے اور ہائیڈروجن ایندھن کے متبادل۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوائی جہاز سب سے پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان کو بجلی فراہم کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ بیٹری کا وزن ہے۔ اگر آپ نے آج کی بیٹریوں کے ساتھ 737 کو مکمل طور پر الیکٹرک کرنے کی کوشش کی، تو آپ کو تمام مسافروں اور سامان کو نکال کر صرف بیٹریوں سے جہاز کو بھرنا پڑے گا، جس سے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت کی پرواز کی جاسکے گی۔

فی یونٹ ماس (mass)کے حساب سے جیٹ فیول، بیٹریوں کے مقابلے میں تقریباً 50 گنا زیادہ توانائی رکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ایک پاؤنڈ جیٹ فیول یا پھر 50 پاؤنڈ بیٹریاں ہو سکتی ہیں۔ اس خلا کو ختم کرنے کے لیے یا تو لیتھیم-آئن بیٹریاں ہلکی کرنی ہوں گی یا ایسی نئی بیٹریاں تیار کرنی ہوں گی جو زیادہ توانائی رکھتی ہوں۔ نئی بیٹریاں تیار کی جا رہی ہیں، لیکن وہ ابھی تک ہوائی جہاز میں استعمال کے لیے نہیں ہیں۔

اگرچہ ہم 737 کو مکمل طور پر برقی کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے، تاہم ہائبرڈ پروپلشن سسٹم استعمال کرکے بڑے جیٹ طیاروں میں بیٹریوں سے کچھ ایندھن جلانے کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ چھوٹے علاقائی طیاروں کے لیے 2030ء-2035ء کے ہدف کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پرواز کے دوران جتنا کم ایندھن جلتا ہے، اتنا ہی کم گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔

ہائبرڈ ایوی ایشن کیسے اخراج کم کرسکتی ہے؟

ہائبرڈ الیکٹرک ہوائی جہاز، ہائبرڈ الیکٹرک کاروں سے ملتے جلتے ہیں جس میں وہ بیٹریاں اور ایوی ایشن فیول کا مجموعہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی دوسری صنعت میں وزن کی وہ حدیں نہیں ہیں، جس کا سامنا ایرو اسپیس انڈسٹری کو کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا، اس بارے میں بہت ہوشیار رہنا ہوگا کہ پروپلشن سسٹم کو کیسے اور کتنا ہائبرڈائز کیا جا رہا ہے۔ ٹیک آف اور پرواز کے دوران بیٹریوں کو پاور اسسٹ کے طور پر استعمال کرنا بہت امید افزا آپشن ہے۔ الیکٹرک پاور استعمال کرتے ہوئے صرف رن وے پر جہاز کی ٹیکسی کرنا بھی ایندھن کی خاصی بچت کر سکتا ہے اور ہوائی اڈوں پر مقامی سطح پر کاربن اخراج کم کر سکتا ہے۔ بیٹری کے اضافی وزن اور ایندھن کے خالص فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ کتنی بجلی استعمال کر سکتے ہیں، اس کے درمیان توازن قائم کرنا پڑے گا۔

ہائبرڈ میں اب بھی پرواز کے دوران ایندھن جلتا ہے، لیکن یہ جیٹ ایندھن پر مکمل انحصار کرنے سے کافی کم ہوسکتا ہے۔ بڑے جیٹ طیاروں کے لیے ہائبرڈائزیشن ایک وسط مدتی آپشن ہوسکتا ہے لیکن علاقائی طیاروں کے لیے ایک قریب المدت حل ثابت ہوسکتا ہے۔2030ء سے2035ء تک ماہرین کی توجہ ہائبرڈ ٹربوپروپس (turboprops) پر ہے، جو کہ عام طور پر علاقائی ہوائی جہاز ہیں جن میں 50سے80 مسافر ہوتے ہیں یا وہ مال برداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ہائبرڈ ایندھن کے استعمال میں تقریباً 10 فیصد کمی کر سکتے ہیں۔ الیکٹرک ہائبرڈ کے ساتھ ایئر لائنز علاقائی ہوائی اڈوں کا زیادہ استعمال بھی کر سکتی ہیں، جس سے بڑے ہوائی اڈوں پر بھیڑ کم ہو سکتی ہے اور بڑے ہوائی جہاز رن وے پر زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔

قریبی مدت میں پائیدار ہوا بازی

پروفیسر گوکچن سینار کا کہنا ہے کہ مختصر مدت میں سسٹین ایبل ایوی ایشن فیول کا زیادہ استعمال دیکھا جاسکتا ہے۔ آج کے انجنوں کے ساتھ سسٹین ایبل ایوی ایشن فیول کو جہازوں کے فیول ٹینک میں ڈال سکتے اور جلا سکتے ہیں۔ مکئی، تیل کے بیج، الجی (algae) اور دیگر چکنائیوں سے تیار کردہ ایندھن پہلے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ سسٹین ایبل ایوی ایشن فیول ہوائی جہاز کے خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کو تقریباً 80 فیصد تک کم کر سکتا ہے، لیکن اس کی سپلائی محدود ہے۔ تاہم، ایندھن کے لیے بائیوماس کا زیادہ استعمال خوراک کی پیداوار پر اثر ڈال سکتا ہے اور جنگلات کی کٹائی کا باعث بن سکتا ہے۔

دوسرا آپشن مصنوعی سسٹین ایبل ایوی ایشن فیول کا استعمال ہے، جس میں ہوا یا دیگر صنعتی عمل سے کاربن حاصل کرنا اور اسے ہائیڈروجن کے ساتھ مرکب کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ ایک پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے اور ابھی تک اس کا پیداواری پیمانہ زیادہ نہیں ہے۔ ایئر لائنز مختصر مدت میں اپنے آپریشنز کو بھی بہتر بنا سکتی ہیں، جیسے کہ تقریباً خالی طیاروں کو اڑانے سے بچنے کے لیے روٹ پلاننگ کرنا۔ اس طرح کاربن اخراج کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

ہوا بازی کیلئے ہائیڈروجن کا آپشن

ہائیڈروجن ایندھن بہت طویل عرصے سے موجود ہے جبکہ گرین ہائیڈروجن (قابل تجدید توانائی سے چلنے والے پانی اور الیکٹرولیسس کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے) کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا نہیں کرتا۔ یہ بیٹریوں کے مقابلے میں فی یونٹ ماس کی زیادہ توانائی بھی رکھ سکتا ہے۔

ہوائی جہاز میں ہائیڈروجن استعمال کرنے کے دو طریقے ہیں، یا تو انجن میں جیٹ فیول کی جگہ یا پھر آکسیجن کے ساتھ مل کر ہائیڈروجن فیول سیلز کو پاور کرنے کے لیے، جو پھر ہوائی جہاز کو طاقت دینے کے لیے بجلی پیدا کرتے ہیں۔

پروفیسر گوکچن سینار کہتی ہیں کہ سارا مسئلہ حجم کا ہے، ہائیڈروجن گیس بہت زیادہ جگہ لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انجینئرز اسے بہت ٹھنڈا رکھنے جیسے طریقے تلاش کر رہے ہیں تاکہ اسے مائع کے طور پر ذخیرہ کیا جا سکے جب تک کہ یہ گیس کی طرح جل نہ جائے۔ یہ اب بھی جیٹ فیول سے زیادہ جگہ لیتی ہے اور اس کے اسٹوریج ٹینک بھی وزنی ہیں، لہٰذا اس پر ابھی کام کیا جا رہا ہے کہ اسے ہوائی جہاز میں کیسے ذخیرہ، ہینڈل یا تقسیم کیا جائے۔ ایئربس، A380 پلیٹ فارم کے ساتھ تبدیل شدہ گیس ٹربائن انجنوں کا استعمال کرتے ہوئے ہائیڈروجن کمبسشن پر کافی تحقیق کر رہی ہے اور اس کا مقصد 2025ء تک پائیدار ٹیکنالوجی حاصل کرنا ہے۔ پروفیسر گوکچن سینار اگلے چند سالوں میں مختلف قسم کے اختیارات کی وجہ سے ہائیڈروجن کو پائیدار ہوا بازی کے لیے کلیدی ٹیکنالوجیز میں سے ایک کے طور پر دیکھتی ہیں۔

ٹیکنالوجیز سے اخراج کم کرنے کا اہداف

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجیز ہوا بازی صنعت کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے اہداف کو پورا کر پائیں گی؟ دراصل، ہوا بازی کے کاربن اخراج کا مسئلہ ان کی موجودہ سطح کا نہیں ہے بلکہ یہ خدشہ ہے کہ ہوائی سفر کی طلب میں اضافے کے ساتھ ہی ان کے اخراج میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ 2050ء تک، وبائی مرض سے پہلے کے مقابلے میں ہوا بازی کی صنعت سے تین سے پانچ گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج دیکھا جاسکتا ہے۔

انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی ہے، جو یہ دیکھتے ہوئے کہ کیا ممکن ہے اور ہوا بازی کس طرح حدود کو آگے بڑھا سکتی ہے، عام طور پر صنعت کے اہداف کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کا طویل مدتی ہدف 2005ء کی سطح کے مقابلے میں 2050ء تک خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 50فیصد کم کرنا ہے۔

وہاں پہنچنے کے لیے مختلف ٹیکنالوجیز اور اصلاح کی ضرورت ہوگی۔ پروفیسر گوکچن سینار کہتی ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ ہم 2050ء تک اس تک پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے لیکن ہمیں مستقبل میں ہوا بازی کو ماحولیاتی طور پر پائیدار بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔