نئی ٹیکنالوجی عدم مساوات کی وجہ نہیں بلکہ حل ہے

November 14, 2022

ٹیکنالوجی نے جہاںتیز رفتار ترقی کی ہے، وہیں ایک طبقے کی جانب سے اس ترقی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت نے کئی لوگوں کی ملازمتیں ختم کردی ہیں، اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کی آجروںسے بارگین کرنے کی طاقت کم ہوئی ہے اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔

یہاں تک کہ بڑھتی ہوئی آمدنی اور دولت کی عدم مساوات اور اس کے نتیجے میں بریگزٹ، یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی پاپولزم کا عروج اور موسمیاتی تبدیلیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس سب کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی عالمی نگرانی اور ضوابط طے کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے اور تحفظ پسند تجارتی پالیسیوں اور سیاسی لابنگ کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

لیکن شاید ہمیں ان سماجی مسائل کے لیے تکنیکی اختراع کو اتنی آسانی سے مورد الزام ٹھہرانے کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ درحقیقت، جرمنی میں بڑھتی ہوئی آمدنی میں عدم مساوات کے اسباب کے بارے میں ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جدت طرازی کی کمی اور انٹرپرینیورشپ درحقیقت مسئلے کی جڑ ہے۔ ہمیں تکنیکی جدت اور پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ معیشتوں میں کاروباری صلاحیت، اختراعی اور کاروباری حرکیات کو واپس لانے کے چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سالوں میں خصوصیت رکھتی تھی، جب ترقی بھی زیادہ جامع تھی۔

کاروبار میں ٹیکنالوجی

ٹیکنالوجی کی ترقی نے کاروبار کو آسان بنایا ہے۔ یہ سسٹمز، مصنوعات اور خدمات کی کارکردگی کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ پروسیسز کو ٹریک اور ہموار کرنے، ڈیٹا کے بہاؤ کو برقرار رکھنے اور رابطوں اور ملازمین کے ریکارڈ کو منظم کرتی ہے۔ درحقیقت، اس سے آپریشن کی کارکردگی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی ہوتی ہے، جس سے کاروبار تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال مالیاتی ڈیٹا، رازداری پر مبنی انتظامی فیصلوں اور دیگر ملکیتی معلومات کی حفاظت کے لیے کیا جا سکتا ہے، جو مسابقتی فوائد کا باعث بنتی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کاروبارکو ترقی دینے، مختلف پیرامیٹرز کو مضبوط اور تجزیہ کرنے، اقتصادی حالات کا جائزہ لینے، کمپنی کی مالی صورتحال معلوم کرنے، ٹیکنالوجی کے رجحانات، صارفین کے ذہن کو پڑھنے اور مارکیٹ میں حریفوں کی تعداد کا تعین کرنے کے حوالے سے امکانات کی ایک وسیع کھڑکی کھول دی ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی کے ذریعے دو طرفہ کمیونیکیشن اور رابطے بڑھنے سے کاروبارآسان بن گیا ہے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں سامنے آنے والی جدت سے بھرپور ٹیکنالوجیز تجارت کے عمل کو زیادہ مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

عالمی تجارتی نظام میں ٹیکنالوجی کا تغیر کوئی نئی بات نہیں۔ شپنگ کنٹینرز کے نمبرز پڑھنے کے لیے آپٹیکل کریکٹر رِیکگنیشن(OCR)، ریڈیو فریکونسی آئی ڈینٹیفیکیشن (RFID)، شپمنٹ کی شناخت اور اس پر نظر رکھنے کے لیے QRکوڈ اور تجارتی دستاویزات کی بنیادی ڈیجیٹلائزیشن نے بین الاقوامی تجارت پر اعتماد بڑھانے اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب عالمی تجارت، ٹیکنالوجی میں نت نئی جدت متعارف ہونے کے بعد بڑی تبدیلیاںرونما ہورہی ہیں۔ ایسی کئی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جارہی ہیں جو عالمی تجارت میں تغیر کا باعث بنیں گی۔

جرمنی کی مثال

اقتصادی ماہرین مطالعہ کرنے کے لیے جرمنی کو مثالی کیس کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں وہاں عدم مساوات تیزی سے بڑھی ہے اور مشرقی و مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد سے بے مثال سطح پر پہنچ گئی ہے۔ لیکن امریکا کے برعکس، مثال کے طور پر، معیشت کی بہت کم فنانشلائزیشن ہوئی ہے اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے ملازمتوں کی کوئی خاص آؤٹ سورسنگ نہیں ہوئی ہے۔

جہاں امریکا بہت بڑے تجارتی خسارے کے ساتھ چلتا ہے، وہیں جرمنی ایک بڑے تجارتی سرپلس کے ساتھ چلتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹومیشن نے جرمنی میں اس سے کہیں زیادہ ملازمتیں پیدا کی ہیں، جتنی کہ اس نے ختم کی ہیں۔ تو پھر یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت میں عدم مساوات اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے؟

اس حوالے سے دلیل دیتے ہوئے یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ جرمنی میں صارفین، سرمایہ کار اور اختراع کار مؤثر طریقے سے ’ہڑتال‘ پر ہیں۔ جرمنی میں گھرانوں، حکومتوں اور کارپوریشنوں کی کھپت بہت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن وہ سب بڑے پیمانے پر بچت کر رہے ہیں۔ عوامی اور کارپوریٹ کے مجموعی مقررہ سرمایہ کاری کے اخراجات کم ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً، جرمنی کی مارکیٹ کاروباری افراد اور کارپوریشنوں کے لیے جدّت کو فروغ دینے کے لیے اتنی پُرکشش جگہ نہیں ہے۔

کافی سرمایہ کاری کے بغیر، گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مزدور کی پیداواری ترقی (productivity growth) میں نمایاں کمی آئی ہے، جو 1992ء میں 2.5فیصد سے گر کر 2013ء میں 0.3فیصد پر آ گئی، یعنی آٹھ گنا سست ہوگئی ہے۔ اس کا استعمال حقیقی اجرتوں، یونین بارگین کی طاقت اور مسابقت کو برقرار رکھنے کے لیے سماجی تحفظ کے فوائد میں مسلسل کمی کے جواز کے لیے کیا گیا ہے۔ اور یہ جرمن عدم مساوات کو چلانے والے بنیادی میکانزم میں سے ایک ہے۔

یہ نتیجہ جرمنی کے ایک کامیاب، ٹیکنالوجی سے چلنے والی ترقی یافتہ معیشت کے طور پر عام تصورات سے متصادم معلوم ہو سکتا ہے۔ مجموعی سرمایہ کاری میں کمی کے باوجود، جرمنی یقینی طور پر جدّت کی حوصلہ افزائی پر بڑے پیمانے پر خرچ کر رہا ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر جرمن اخراجات میں 2000ء اور 2016ء کے درمیان حقیقی معنوں میں تقریباً 50فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب یہ جی ڈی پی کے 3فیصد کے قریب پہنچ رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان سب پیسوں سے کیا خریدا جارہا ہے؟ پیداواری اور معاشی ترقی کیوں تیز نہیں ہو رہی؟ آسان الفاظ میں، جرمنی کی اختراعات ماضی کے مقابلے میں کم مؤثر اور کم تجارتی ہونے کا امکان ہے۔ مثال کے طور پر، دیے گئے پیٹنٹ کی تعداد اور درحقیقت درخواست کی گئی تعداد کے درمیان تناسب 1980ء کی دہائی کے آخر سے طویل مدتی کمی کا شکار ہے۔ پیٹنٹ کے متعلقہ معیار جیسا کہ حوالہ جات کے ذریعہ ماپا جاتا ہے، میں بھی کمی آئی ہے۔ ہائی ٹیک شعبوں جیسے تھری ڈی پرنٹنگ، نینو ٹیکنالوجی اور روبوٹکس میں دنیا کی ٹاپ 30 اختراعی کارپوریشنز میں صرف چار جرمن فرمز ہیں۔ اور جب کہ اختراعات پر زیادہ خرچ کیا جارہا ہے، لیکن یہ بڑی کمپنیوں تک مرکوز ہے۔ جرمنی میں زیادہ تر چھوٹی اور درمیانے درجے کی فرمز اختراع پر صفر یا پھر بہت کم سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

جدّت طرازی کے اثرات میں کمی اس حقیقت کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ جرمنی میں انٹرپرینیورشپ جمود کا شکار ہے۔ اسٹارٹ اَپ سرگرمی کا اشاریہ ’مین ہائیم انٹرپرائز پینل‘(کاروباری حرکیات کا ایک اچھا پیمانہ) 1990ء اور 2013ء کے درمیان 120 سے 60 تک گر گیا، یعنی50فیصد کمی۔ یہ جزوی طور پر ہے کیونکہ موجودہ کمپنیوں نے مارکیٹ میں نئی آنے والی کمپنیوں کو روکنے کے لیے جدّت کا استعمال کرنے کے بجائے ان سے مقابلہ کرنے کے لیے قدامت پسند یا دفاعی حکمت عملی اپنائی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے جرمنی کو ایسی جدّت کی ضرورت ہے، جو مزدور کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرے۔ جرمنی کو نئی ٹیکنالوجی کو تیار اور اسے کمرشل کرنے اور انٹرپرینیورشپ کے زیادہ قوی جذبے کو اپنانے کے لیے خاص طور پر چھوٹی اور درمیانے درجے کی مزید فرمز کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے جدّت کے نظام میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر مسابقت کو فروغ دینے، اہم عوامی بنیادی ڈھانچے میں مزید سرمایہ کاری، اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور رفتار کو بہتر بنانے کے لیے۔

جرمنی کی اہم آٹو انڈسٹری کو پرانی ٹیکنالوجیز تک محدود رہنے سے دور رکھنے کے لیے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تاہم، سب سے اہم بات یہ ہے کہ جرمنی کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے حکومت، صارفین اور کمپنیوں کو زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب ملے۔ نئی مصنوعات اور خدمات کی مانگ پیدا کرنا، اختراع کے لیے اچھا ہوگا۔ اس کی فنڈنگ کا ایک طریقہ یہ ہوگا کہ بڑی کارپوریشنوں پر زیادہ مؤثر طریقے سے ٹیکس عائد کیا جائے۔