محبت، مشرف اور ہیرو کالم نگار

February 17, 2014

اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جنگ جاری رہی۔ قدامت پسند، تنگ ذہن کے حامل افراد نے اس کو کفر اور اسلام کی جنگ بنانے کی بڑی کوشش کی مگر خدا کا شکر ہے کہ محبت کرنے والے جیت گئے، نفرت کرنے والے ہار گئے۔ اسلام محبت کا مذہب ہے، اسلام نے کسی مرحلے پر بھی نفرت نہیں سکھائی۔ محبت دراصل اسلام کا پیغام ہے۔ انسانوں کو انسانوں سے محبت کرنی چاہئے۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں وہ قابل نفرت لوگ ہیں۔ دل کی دنیا کو آباد رکھنے کے لئے محبت بڑی ضروری چیز ہے۔ محبت صفت ربی ہے۔ رب کے بنائے ہوئے انسان محبت سے بغاوت نہیں کر سکتے۔ محبت سے بغاوت کرنے والے انسانیت سے بغاوت کرتے ہیں۔محبت خوبصورتی کی علامت ہے اور خوبصورتی خوشحالی کی وضاحت کرتی ہے۔ معاشرے کی خوشحالی کے لئے خوبصورتی اور محبت کو پروان چڑھانا چاہئے۔ یاد رہے کہ نفرتیں، روشنی نہیں تاریکی تقسیم کرتی ہیں اس لئے روشنی کی خاطر بھی محبتوں کا سفر ضروری ہے۔ خدا کا لاکھ شکر ہے کہ میں اپنے آپ کو محبت پھیلانے والوں کی صف میں دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہی وہ صف ہے جو معاشرے کی صفوں کو درست رکھ سکتی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز ہی میں اس خاکسار نے لکھ دیا تھا کہ طالبان ہی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔ اب نتیجہ قوم کے سامنے آ رہا ہے۔ طالبان بے گناہ لوگوں کو شہید کر رہے ہیں۔ ان میں ہماری فورسز کے جوان بھی شامل ہیں۔ مقابلے میں کوئی ایک آدھ طالب مر جاتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تربت کے ڈی سی اور اے سی کی رہائی کیلئے جو نو رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی اسے بھی اغوا کر لیا گیا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کا کیا بنے گا۔ ویسے تو آج تک اس ملک میں جو معاملہ بھی کسی کمیٹی کے سپرد ہوا ہے اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔پرویز مشرف کو تاریخیں پڑتی جا رہی ہیں۔ بیماری اور بہانے کے درمیان کیا کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں ایکس سروس مین سوسائٹی کے سربراہ اور ہمارے عزیز ریٹائرڈ ایڈمرل مرزا فاروق تشریف لائے تھے۔
چونکہ یہ سوسائٹی پرویز مشرف کے لئے بڑی سرگرم ہے اس لئے میں نے مرزا صاحب سے مشرف کے مستقبل کے بارے میں کریدنا شروع کر دیا۔ میرے سوالوں کے جواب میں انہوں نے مجھے ایک مثال دے کر وضاحت کی۔ کہنے لگے کہ ’’باپ اپنے بچّے کو منع کرتا ہے کہ وہ سامنے آگ جل رہی ہے اس آگ میں مت کودنا، اگر باپ کے منع کرنے کے باوجود بچّہ آگ میں چلا جائے تو پھر باپ کیا کرتا ہے؟ ظاہر ہے باپ اپنے بچّے کو آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ پھر آپ لوگ کیا کر رہے ہیں…؟ کہنے لگے ’’مشرف ہمارا بچّہ ہے، آگ کی لپیٹ میں ہے، ہم اسے ہر حال میں بچائیں گے۔ ہماری کچھ کارروائیوں سے آپ کو احساس بھی ہوا ہو گا۔ جہاں تک تاریخوں کا تعلق ہے تو بس ٹھیک ہے، تاریخیں پڑتی رہیں گی‘‘
آپ کو یاد ہو گا کہ مشرف کے مستقبل کے بارے میں بھی یہ خاکسار لکھ چکا ہے، اب اس پر بار بار کیا لکھنا۔
میں نے عنوان میں ہیرو کالم نگار کا تذکرہ کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جناب حسن نثار کالم نگاروں کے ہیرو ہیں۔ لائل پور کا رہنے والا یہ انسان سچّا اور کھرا ہے۔ بلاشک و شبہ اس کا کالم اردو کے تمام کالم نگاروں سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو بھی کالم کی طرح ہر دل عزیز ہے۔ اگر پڑھنے والوں اور سننے والوں سے یہ پوچھا جائے یا الیکشن کرایا جائے کہ کون سا کالم نگار عمدہ ہے تو حسن نثار بلامقابلہ جیت جائے گا۔ اگر کوئی خدانخواستہ مقابلے میں آ بھی گیا تو اسے دس فی صد سے کم ووٹ ملیں گے کیونکہ نوّے، پچانوے فی صد ووٹ حسن نثار کے ہوں گے۔ وہ اپنی گفتگو میں بڑے بڑے فلسفیوں کو لاجواب کر دیتا ہے۔ جملے اس کے کاٹ دار، آواز اس کی دبنگ، شاعر تو وہ ہے ہی خوبصورت، نثرنگار کمال کا ہے، اسے الفاظ کا برتائو آتا ہے، اس نے علم کھنگالا ہے۔ اس درویش صفت کے سامنے درباریوں کی حیثیت کچھ بھی نہیں، اس نے میاں نثار الحق کو حسن دیا اور خود کو حسن نثار ثابت کیا۔ اسے لائل پور سے عشق ہے، اسے کچھ کرنے کا جنون ہے، وہ چاہتا ہے کہ قوم کچھ کرے۔ دوستوں کی محفل تھی، وہ دکھی ہوا اور دکھ میں بولا کہ ہماری زمین بہت زرخیز ہے مگر ہمارے لوگ بڑے بنجر ہیں۔ یہ کیا کم دکھ ہے کہ زرخیز زمین پر بنجر لوگوں کا بسیرا ہے۔
حسن نثار ایک عوامی کالم نگار ہے جو لوگوں کی زبان بولتا ہے، لکھتا ہے، لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ اس نے زندگی میں خوبصورت نظمیں، غزلیں اور گیت لکھے مگر اس نے اس وقت تو کمال ہی کر دیا جب تاجدارِ مدینہ کے حضور گل ہائے عقیدت پیش کئے۔ حسن نثار کی طویل ترین نعت سے یہاں صرف پانچ اشعار رقم کر رہا ہوں کہ کالم نگاروں کا ہیرو شان محمدؐ میں کس قدر محو نظر آتا ہے۔
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کہیں
میں کوئی کچّا راستہ ہوتا
مجھ پہ پڑتی جو تیری چشم کرم
آدمی کیا، میں معجزہ ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پائوں میں چومتا ہوتا
مجھ کو خالق بناتا غار حسن
اور میرا نام بھی حرا ہوتا