مسجدِ نبوی ﷺ دورِ رسالت میں

February 09, 2024

مولانا نعمان نعیم

مسجد نبویؐ میں حضور اکرم ﷺکے زمانے سے آج تک نماز پنج گانہ با جماعت کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وہ مقصد اصلی ہے جس کے لیے وہ بنائی گئی ہے۔ مسجد نبوی ؐکی ایک نماز دوسری مساجد میں پڑھی جانے والی نمازسے ایک ہزار گنا زیادہ افضل اور باعث ثواب ہے۔ (صحیح بخاری)

مسجد نبویؐ کی خدمت کو تمام صحابہ کرامؓ اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے ، تاہم بعض صحابہؓ و صحابیاتؓ کوبا قاعدہ نبی اکرمﷺ نے اس مقصد پر مامور فرمایا تھا ، کتبِ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کی ذمے داری مسجد نبویؐ میں شور و غل کرنے والوں کو منع کرنا تھی۔مسجد نبوی کو صاف کرنے کے لیے حضرت محجنہؓنامی صحابیہ تھیں جو مسجد کو صاف کرتی ، جھاڑو وغیرہ دیتی تھیں۔

اسی طرح جماعت میں مسلمانوں کو بلانے اور ان کے حاضری کے لیے الگ نگران مقرر تھے۔ حضوراکرم ﷺنےاہل مکہ کے لیے عتاب بن اسیدؓ کو مقرر فرمایا تھا۔حضرت بلال ؓ اذان دینے اور صفوں کو درست کرانے پر مامور تھے۔

اسی طرح مسجد نبوی کے مؤذن اور منادی وغیرہ بھی مقرر تھے۔ اس کے علاہ بھی مسجد نبویؐ سے ریاست میں نبی اکرم ﷺپی اے کے دور میں مختلف امور انجام دیے گئے ، آئیے جانتے ہیں کہ وہ کون کون سے امور تھے؟

عوامی جرگہ:۔مسجد نبوی ؐکو چونکہ ریاست نبوی میں صدر مقام کا درجہ حاصل تھا، اس لیے مسجد کے ساتھ ساتھ یہ مختلف قبائل کے آپس کے تنازعات و معاملات کو حل کرنے کے لیے جرگہ کا مقام بھی تھا ، حضور نبی کریم ﷺ یہیں سےہی قبائل کے آپس کے معاملات کے حل کے لیے احکام اور ارشادات فرماتے تھے۔

مسافر خانہ کا انتظام:۔حضور نبی کریم ﷺ دور سے آئے ہوئے مسافر مہمانوں کے انتظامات مسجد ہی سے کرواتےاور ان کے قیام کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مقرر فرماتے تھے۔

شعبۂ اصلاح و وعظ و نصیحت:۔مسجد نبویؐ چونکہ دیگر امور کو انجام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جامع مسجد بھی تھی تو حضوراکرمﷺ مسجد سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وعظ و نصیحت فرماتے اور ان کی اصلاح مسجد نبوی ؐسے ہی فرماتے تھے۔

شعبۂ اعانت نو مسلم:۔وہ صحابہ کرامؓ جو حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوتے اور مالی حالت یا کسی اور وجہ سے پریشانی کا شکار تھے، ان کے لیے مسجد نبوی میں ’’شعبۂ اعانتِ نو مسلم‘‘ قائم تھا جس میں نو مسلم صحابہ کرامؓ کی دوسرے صحابہ کرامؓ کے ذریعے مدد کی جاتی تھی۔

شعبۂ اعانت ِمہاجرین:۔صحابۂ کرام ؓکی وہ جماعتیں جو انفرادی یا اجتماعی طور پر مکہ مکرمہ، طائف یا دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کا رخ کرتیں، ان کے لیے انصار صحابہؓ اپنے مال و جائیداد میں سے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق مہاجرین کی مدد کرتے ، اسی غرض سے مسجد نبویؐ میں اعانت مہاجرین کا شعبہ قائم ہوا ، اس کا مرکزی دفتر مسجد نبوی میں تھا، جہاں نہ صرف اموال جمع ہوتے تھے ، بلکہ مستحقین کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا اور ان کے در میان اموال بھی یہیں سے تقسیم ہوا کرتے تھے۔

شعبۂ اعانت مسافرین:۔حضور نبی کریم ﷺکے دور میں لوگ دور دور سے اسلام میں داخل ہونے کے لیے مدینہ کا رخ اختیار کر رہےتھے، ان حضرات کے لیے کھانے پینے اور سونے کا اہتمام بھی مسجد نبوی ہی سے کیا جاتا اور مستقل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مقرر تھے جو ان حضرات کے لیے خدمت انجام دیتے تھے۔

شعبۂ تعلیم و تربیتِ بالغاں:۔جو صحابہ کرامؓ نئے نئے دین میں شامل ہوتے تھے، انہیں نماز اور دیگر دینی معاملات کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی مسجد نبویؐ میں ہوتا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے تعلیم بالغاں کا با قاعدہ آغاز ہوا صحابہ کرامؓ چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں ، یہیں سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے ۔ اس میں دوسرے فنون کی تربیت بھی شامل تھی ، اس اعتبار سے یہ گویا ایک ٹریننگ سینٹر تھا ، جہاں ریاست کی طرف سے اس کے شہریوں کو تمام ضروری تعلیم وتربیت فراہم کی جاتی تھی۔

شعبۂ انجینئرنگ:۔حضور ﷺکے زمانے میں مسجد نبوی میں انجینئرنگ کا شعبہ قائم تھا جو یہ طے کرتا تھا کہ مسلمانوں کے لیے جاگیریں کس بنیاد پر اور کیسے الاٹ کرنی ہیں؟ بازار اور مساجد کہاں تعمیر ہونی چاہئیں؟ سڑکیں کتنی اور کیسی ہونی چاہئیں؟ شہری سہولیات عوام کو کیسے میسر ہوں گی؟ وغیرہ وغیرہ

تبلیغی وفود کی تشکیل:۔مسجد نبویؐ دعوت وتبلیغ کا مرکز تھی، یہیں سے مختلف قبائل اور علاقوں کے لیے حضور اکرمﷺ نے وفود بھیج کر انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔

خانگی معاملات کا تصفیہ:۔دور نبویؐ میں اکثر و بیش تر نکاح سے متعلق معاملات کے فیصلے حضور ﷺ مسجد نبوی سے ہی فرمایا کرتے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے حضور نبی کریم ﷺاصحاب رسول اور ان کی ازواج رضوان اللہ علیہم اجمعین کےدرمیان نکاح اور دیگر گھر یلو تنا زعات وغیرہ کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔

پارلیمنٹ ہاؤس:۔حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ریاستی امور کو جہاں حل کیا جاتا تھا ، وہ مقام یعنی پارلیمنٹ بھی وہ مسجد نبوی ہی تھی ، جہاں سے ہر قسم کے ریاستی معاملات کو چلا یا جاتا اور تمام فیصلے کیے جاتے تھے یہی وہ مقام تھا جہاں پر نبی کریم ﷺ سپریم لیڈر اور اصحاب کو پارلیمنٹرینز کا مقام حاصل تھا اور حضوﷺ صحابہ کرامؓسےرائے لے کر فیصلہ صادر فرماتے تھے۔

اعلیٰ عدلیہ:۔نبی کریم ﷺہی کے لیے مسجد نبوی میں ایک جگہ مختص تھی، جہاں بیٹھ کر آپﷺ ہر قسم کے مقدمات کا فیصلہ صادرفرماتے ۔ یہ سنت خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں بھی قائم رہی ، یہاں تک کہ حضرت علی ؓکے دور میں دار الخلافہ کو فہ منتقل ہوا۔

مردوں کا عارضی قید خانہ:۔دور ِنبوی میں اگر چہ مستقل تھانے اور جیل خانے وغیرہ کا وجود نہیں تھا ، تاہم کسی کو عارضی طور پر ،چند یوم کے لیے ، قید کرنا ہو تو اسے مسجد نبوی ؐہی میں قید کیا جاتا ، اس اعتبار سے مسجد نبوی عارضی قید خانہ بھی تھی، چنانچہ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن ثال کو جب نجد سے لایا گیا تو حضور نبی کریم ﷺنے انہیں مسجد نبوی ہی کے ایک ستون سے بندھوایا تھا۔

دار التصنيف:۔حضور اکرم ﷺ کے دور میں مسجد نبوی کو دارالتصنیف کا مقام بھی حاصل تھا ، یہیں سے بادشاہوں اور قرب وجوار کے سرداروں کو خطوط لکھوائے جاتے تھے۔ دیوان کتاب یاد یوان انشاء سب سے پہلے عہد نبوی میں ہی قائم کیاگیا، اسی طرح قرآن کریم کی وحی کی کتابت بھی اکثر اوقات یہیں کی جاتی تھی۔ کاتبین وحی اور کاتبین خطوط یعنی دار التصنیف کے رفقاء کی کل تعداد تینتالیس تک ذکر کی گئی ہے ،اس سے اس شعبے کی اہمیت کااندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔

سفارتی تعلقات اور مسجد نبویؐ:۔مسجد نبوی سے ہی عہد نبوی میں سفارت کاری کا کام لیا جاتا اور یہیں سے سفارتکاروں کی دوسرے ممالک تشکیل کی جاتی تھی۔ اسی طرح حضور ﷺباد شاہوں کے نام خطوط دے کر اپنے قاصدوں کو یہیں سے روانہ کرتے تھے۔ آپ ﷺکے سفارت کاروں میں حضرت دحیہ کلبی، حضرت حاطب ، حضرت علاء بن حضرمی ، حضرت عمر و بن عاص حضرت شجاع بن وھب ، حضرت مہاجر بن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ حضرات شامل ہیں۔

دفتر وزارت خارجہ :۔حضور اکرمﷺ نے سفارت کاری کے ساتھ ساتھ عرب اور غیر عرب قبائل جو ریاست کے باہر آباد تھے، ان سےبھی خارجہ پالیسی کے تحت معاہدات فرمائے ، یہ دفتر خارجہ کی ذمے داری ہوتی ہے، دورِنبوی میں یہ کام بھی مسجدنبوی سے ہی لیا جاتا تھا۔

جہاد اور حربی و عسکری امور سے متعلق مشاورت :۔حضور اکرم ﷺ کے عہدمیں جہاد، چاہے دفاعی ہو جیسے کہ غزوۂ خندق وغیرہ ، یا اقدامی ہو جیسے کہ بدر واُحد اور دیگر غزوات وغیرہ سب کی تیاری مسجد نبویؐ ہی سے ہوتی تھی۔ یہیں سے سپاہیوں کو تربیت اور ان کے لیے اسلحہ کا انتظام کر کے اُنہیں جنگوں کے لیے روانہ کیا جاتا تھا، اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ مسجد نبوی گویا کہ اس دور میں جنرل ہیڈ کوارٹرکی حیثیت رکھتی تھی ، کیونکہ عموما ًجو کام جنرل ہیڈ کوارٹرسے لیے جاتے ہیں ، وہی کام مسجد نبوی ؐ سے اس دور میں لیے جاتے تھے ۔

دفتر وزارت داخلہ:۔حضور اکرم ﷺمسجد نبوی سے ہی ریاست کے داخلی معاملات کو حل کرتے اور ریاست کے باشندگان کے معاملات کی مکمل طور پر یہاں سے نگرانی رکھی جاتی تھی ، یہ وزارتِ داخلہ کی ذمے داریاں ہیں اور دور نبویؐ میں عموماً یہ کام بھی مسجد نبویؐ سے ہی لیا جاتا تھا اور یہیں سے داخلی معاملات پر نگران مقرر کیے جاتےتھے۔

اقامتی مدرسہ:۔الصفہ ایک سائبان تھا ، جو مسجد نبوی کے کنارے پر مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا۔ اصحاب رسول ﷺمیں سے وہ حضرات جنہوں نے خود کو دین کے لیے وقف کر رکھا تھا ، یہاں پر رہ کردینی علوم سیکھتے اور تربیت و تزکیہ حاصل کرتے تھے، اُن حضرات کے لیے باقاعدہ معلم مقرر تھے ۔ مدرسہ صفہ میں طلباء کی مجموعی تعداد چار سو تک تھی ، جن کی رہائش اور کھانا پینا بھی مسجد نبوی ہی میں ہوتا تھا ، اس اعتبار سے مسجد نبوی کو ہم ایک رہائشی و اقامتی مدرسہ اور ہاسٹل بھی کہہ سکتے ہیں۔

جو صحابہ کرامؓ ، مدرسہ صفہ میں دن کو پڑھتے، وہ رات کو قیام مسجد میں بنے مدرسے کے اُسی چبوترے میں کرتےتھے، اُن میں سے بعض حضرات دن کو کام کر کے کھانے کی اشیاء لاتے اور سب مل کر کھاتے تھے ، اس اعتبار سے یہی مدرسہ اُن حضرات کے لیے دارالاقامہ ( بورڈنگ ہاؤس ) کا مقام بھی رکھتا تھا۔

شعبۂ دستاویزات:۔حضورﷺ نےمسجد نبویؐ ہی میں ایک شعبہ دستاویزات بھی قائم کر رکھا تھا اور صحابہ کرام ؓاس شعبے میں بلا معاوضہ کام انجام دیتے اور اس شعبے میں دستاویزات کا کام کرتے تھے۔ ان میں حضرت عبد اللہ بن ارقم ؓ کا اسم گرامی سر فہرست ہے، جو نبی اکرمﷺ زمانے سے حضرت عثمان غنیؓ کے دور تک بلا معاوضہ اپنی خدمات شعبہ دستاویزات کے لیے انجام دیتے رہے۔ ( …جاری ہے …)