عاشوراء کے روزے اور اس دن اہل وعیال پر خرچ میں وسعت کرنے کا حکم

July 12, 2024

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: یوم عاشور کے روزے اور اس دن اہل وعیال پر خرچ کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:آپ کے سوال کے دو جزو ہیں: (1) عاشوراء کے روزے کا حکم۔ (2) عاشوراء کے دن اہل و عیال پر خرچ میں وسعت کرنے کا حکم۔

ذیل میں دونوں کا حکم علیحدہ تحریر کیا جارہا ہے:

عاشوراء کے روزے کا حکم:۔عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ ابتدائے اسلام میں فرض تھا، لیکن رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی اس روزے کا اہتمام فرمایا ہے، اس لیے یہ روزہ رکھنا مسنون ومستحب ہے۔ اس کی فضیلت یہ ہے کہ عاشوراء کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، وصال سے پہلے والے سال جب رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہود بھی شکرانہ کے طور پر عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا :"اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:"عاشورہ کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو۔"

لہٰذا فقہائے کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے، اور مشابہتِ یہود کی بناء پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے، اس لیےدسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں محرم کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے، تاکہ اس عبادت کی ادائیگی میں یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے، تاہم اگر کسی بناء پر تین یا دو روزے رکھنا دشوار ہو تو صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لینا چاہیے، تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: 1.نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔2. نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔3. صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے ،اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو ،اسے کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

عاشوراء کے دن اہل و عیال پر خرچ میں وسعت کا حکم: عاشوراء (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا۔" حضرت سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین )

محدثین کرام کے ہاں یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے یہ قابلِ استدلال ہے، لہٰذااگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پر جو فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ ان شاءالله ضرور حاصل ہوگی۔

تاہم اہل و عیال پر نفقے میں وسعت کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں، چاہے اچھا کھانا بنانے کی صورت میں ہو یا کثیر تعداد میں بنانے کی صورت میں یا خرچ دینے میں وسعت کے ذریعے ہو۔ البتہ صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ کہ اچھے کھانے پکائے جائیں اس کا حدیث میں تذکرہ نہیں ہے۔