شجر کاری

July 26, 2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

ان دنوں پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، گرمی کی شدت اور درجۂ حرارت میں ۵۰ ڈگری تک اضافے کی بہت سی ماحولیاتی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گرمی کی شدت کو روکنے یا کم کرنے میں جو چیز ایک ’’فصیل ‘‘ یا ’’شہر پناہ ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے وہ فصیل اور شہر پناہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں ڈھا دی ہے۔ گرمی کی شدت سے بچائو کی یہ فصیل اور شہر پناہ انسانوں کے لئے فطرت کا حسین تحفہ درخت تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ صرف کراچی شہر کا کوئی محلہ، درختوں کے سایے سے خالی نہیں تھا۔

ہمارے بچپن میں شہر کا کوئی چھوٹا بڑا ، قدیم و جدید گھر ایسا نہیں تھا کہ جس میں نیم، پیپل، بیری، آم، جامن یا امرود کا کم از کم ایک درخت نا ہو، لیکن آج کسی گھر، گلی ، محلے میں درخت تو کیا کوئی پودا تک نظر نہیں آتا، ہم نے شہروں ، گائوں ، دیہات ہر جگہ سے شہری خوبصورتی یا رہائش کی کمی یا تنگی کے بہانے بلند عمارتوں،کئی کئی منزلہ پلازوں اور ملٹی پل شاپنگ سینٹرز کی تعمیر اور ہو س زرو زمین میں ہر جگہ سے درختوں ، پودوں اور کھیتوں ، فصلوں کا صفایا کرنا شروع کر دیا جس کا خمیازہ آج ہمیں شدید گرمی اور بارش سے محرومی یا خشک سالی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صرف اس سال پوری دنیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں ہزاروں افراد گرمی کی شدت(ہیٹ ویو) سے جھلس کر لقمہ اجل بن گئے، خصوصاً پاکستان میں سیکڑوں افراد گرمی کی شدت سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کائنات میں اللہ تعا لیٰ کی شان ربوبیت کا مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں انسانوں اور دوسرے جان داروں کو اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، وہیں اسے سازگار ماحول بھی عطا کیا ہے۔ ایسی چیزیں پیدا کی گئیں جو کثافتوں کو جذب کر لیتی ہیں اور مختلف النوع آلودگیوں سے انسانی ماحول کو بچاتی ہیں۔ انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جاندار اور بے جان وسائل حیات کی حفاظت و بقا ء اور نشوو نما کے لئے ضروری ہے کہ انسان ماحولیات کا تحفظ کرے اور ایسی چیزوں سے اجتناب کرے جو فضا، زمین، پانی وغیرہ میں آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔

موجودہ تیز رفتار صنعتی ترقی سے پہلے جنگلات کی کثرت اور مظاہر فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کے باعث آلودگی کا مسئلہ اتنا اہم نہیں، لیکن اب کارخانوں کی کثرت، صنعتی فضلات کی نکاسی کے مناسب انتظامات سے غفلت، آبادی کا بے ہنگم پھیلائو، آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن کا بے دریغ استعمال، جنگلات اور درختوں کی بے تحاشا کٹائی، دریاؤں میں فضلات کا بہاؤ، پُرشور سواریوں اور مشینوں کا استعمال اور اس طرح کے مختلف اسباب کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہوتا جارہا ہے۔ آلودگی دن بدن بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے جہاں طرح طرح کی لا علاج اور مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں وہاں گرمی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ، خشک سالی یا بارش کی کمی اور قحط سالی جیسے خطرناک مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قرآن و حدیث کی تعلیمات اور شریعت اسلامی میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے ہر طرح کے گرم و سرد حالات کا ادراک و شعور اور ان کے نقصا نات سے محفوظ رہنے کا طریقہ بھی تعلیم فرما دیا۔ چناںچہ ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں قرآن و سنت نے ہماری مکمل رہنمائی کی ہے۔ مثلاً سب سے اہم ترغیب درخت لگانے کی دی، بلاوجہ و بلا ضرورت درخت کاٹنے سے گریز کی ہدایت کی گئی۔ ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے مختلف اسباب و ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے جنگلات ہیں ۔ جن کا وجود صاف و شفاف فضاء کی فراہمی اور ماحول کو پُر لطف و پاکیزہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

روئے زمین پر جا بجاپھیلے درخت بنی نو ع انسان کے لئے قدرت کا انمول تحفہ ہیں ۔ درخت نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں، بلکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے ، گرمی کی شدت اور درجۂ حرارت کو کم رکھنے اور بارش برسانے والے نظام کو سرگرم کرنے اور نتیجہ خیز بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ درخت لگانے کو ’’شجر کاری‘‘ کہا جاتا ہے۔

شجر کاری نہ صرف سنت رسول ﷺہے، بلکہ درختوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت طویل، گھنے اور سایہ دار درخت بھی ہیں ۔ جن کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں ’’ لمبا سایہ اور بہتا ہوا پانی کے الفاظ میں ملتا ہے ۔‘‘ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ’’ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایے میں کوئی سوار سو برس تک رہے، تب بھی ا س کا سایہ ختم نہ ہوگا۔ اگر چاہو تو قرآن کا یہ ارشاد پڑھ لو اور لمبا سایہ ہوگا‘‘۔ (بخاری و مسلم، ترمذی و نسانی)

اسی طرح واقعۂ معراج کے سلسلے میں سدرہ یا بیری کے درخت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت اسما ء ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ سوار اس کی شاخوں کے سایے میں سو سال تک چلتا رہے گا یا سو سوار اس سے سایہ لے سکتے ہیں ،اس کے سونے کے پروانے ہیں ،گویا کہ اس کے پھل یعنی بیر بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہوں گے‘‘۔ (ترمذی) اس کے علاوہ بھی قرآن و حدیث میں جا بجا جنت کی نعمتوں میں اس کے باغات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جو کہ جنت کو اور حسین بناتے ہیں۔ اسی طرح زمین کے ماحول کو بھی حسین ، خوبصورت، دل کش اور جنت نظیر بنانے میں بھی درخت اور پودے قابل ذکر کردار کے حامل ہیں۔

شجر کاری ہر دور میں تحفظ ماحولیات کے لئے کلیدی کردار کی حامل رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ زمانہ قدیم ہی سے درختوں کا کردار زمین پر اہمیت و افادیت سے بھرپور رہا ہے، جب اولین انسان کے پاس گھر نہیں ہوتے تھے تو وہ درختوں کے سایوں اور ان کے تنوں میں کھوہ بناکر اپنا بسیرا کرتا، جب وہ بھوکا ہوتا، تو درخت کے پھل ہی کھا کر اپنی بھوک مٹاتا اور جان بچاتا تھا۔ آج بھی انسان درختوں سے بے شمار فائدے اٹھاتا ہے اور ان سے لکڑی، گوند، شہد اور جڑی بوٹی کی شکل میں ادویات حاصل کرتا ہے ۔ انسان کی طرح چرند پرند بھی ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

درختوں پر گھونسلہ بناتے اور اپنی غذا حاصل کرتے ہیں، گویا درخت صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ پرندوں اور جانوروں کے لئے بھی مفید ہیں ۔ اسی طرح درختوں اور پودوں کے پھولوں کی خوشبو سے زمانہ مہکتا ہے۔ رنگ برنگے درخت کبھی ریگستان کو نخلستان میں بدل دیتے ہیں تو کبھی جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیتے ہیں۔ نیز ان درختوں پر بسنے والے پرندوں کی چہچہاہٹ بھی زمین کے ماحول کو خوشگوار بناتی اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔

قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر درخت لگانے کی ترغیب اور اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ ہرے بھرے ، پھل دار درختوں کو انسانوں کے لئے اللہ کا فضل و احسان بتایا گیا ہے۔ سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’ وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے تمہارے لئے پانی نازل کیا، اسی میں سے تم پیتے ہو اور اسی سے درخت اُگتے ہیں، جن میں تم اپنے جانور چراتے ہو، تمہارے واسطے ا سی سے کھیتی ، زیتون ، کھجوریں اور انگور اور ہمہ قسم کے میوے اگاتا ہے۔ بےشک، اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں ‘‘(سورۃ النحل)

قرآن کریم کی طرح رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں شجر کاری کی فضیلت اور درخت لگانے پر اجرو ثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔ حضر ت جابر ؓ سے روایت ہے کو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ جس مسلمان نے کوئی پودا لگایا تو اس کے درخت سے جو کھا لیا گیا، وہ درخت لگانے والے کے لئے صدقہ ہے اور اس میں سے چرند پرند نے کھا لیا، وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہے اور اس کے اجر میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی، مگر اس پودا لگانے والے کے لیے صدقہ یا ثواب ہوگا ‘‘(صحیح مسلم)

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ امّ مبشر انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ ’’ یہ باغ مسلمان نے لگایا ہے یا کافر نے ؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان نے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے اور اس میں سے انسان یا جانور کوئی بھی کھائے تو اس کے لئے صدقہ کا ثواب ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ پودا لگانے یا کھیتی کرنے والا کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس سے درندے یا پرندے یا کوئی اور کھائے تو اس میں درخت لگانے والے کے لئے ثواب ہوگا‘‘۔ (صحیح مسلم) ایک اور جگہ شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جو شخص درخت لگائے اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کی مقدار کے برابر ثواب لکھا جائے گا۔ ‘‘(مسند احمد)

اسی لئے علماء نے افضل ترین پیشے کے طور پر کاشت کاری کو ترجیح دی ہے۔ (شرح منہاج) شجرکاری یا درخت لگانے کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وہ اس بات پر قاد رہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا سکے گا تو ضرور لگائے‘‘ (مسند احمد) درختوں کی اسی افادیت کے پیش نظر آپ ﷺ نے ایسے درخت وغیرہ کو جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔

نبی کریم ﷺ نے حالت جنگ میں بھی درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا، لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی دیتے تھے کہ کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں باغ بانی اور شجر کاری میں گہری دلچسپی لی اور اسے علوم و فنون کی شکل دے کر دنیا میں خوب فروغ دیا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور موسمی تبدیلیوں سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں، شجر کاری ملک و ملت کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے ۔ زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو روکنے کے لئے بارشوں کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے درختوں کا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ خلاق عالم کی خلاقی دیکھیے کہ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہوتے ہیں ، جس سے فضاء میں نمی کا تناسب موزوں رہتا ہے اور یہی بخارات اوپر جاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں جس سے بارش ہوتی ہے۔

ملک میں ساون یا مون سون کا موسم شروع ہو چکا ہے، بزرگوں سے سنا ہے کہ ساون میں سوکھی لکڑی بھی زمین میں لگا دی جائے تو وہ بھی سرسبز ہو جاتی ہے یعنی ساون کا مہینہ تمام قسم کے درخت اور قلمیں لگانے کے لئے موزوں ترین وقت ہے، لہٰذا درخت لگانے کی تیاری شروع کردیں، تاکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور گرمی پر قابو پایا جاسکے۔ درختوں میں نیم کا درخت ۵۵ ڈگری تک گرمی اور ۱۰ ڈگری تک سردی کو جذب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

ایک بارہ فٹ کا درخت تین ائیر کنڈیشنرز کے برابر ٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔ درخت زندگی اور قیمتی سرمایہ ہیں، اس سرمائے سے صدقہ کا ثواب حاصل کریں، اس ثواب کو اپنے مرحومین سے منسوب کر کے انہیں بھی اس میں شامل کریں، جب تک یہ درخت سر سبز رہیں گے ، اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں بھی ملتا رہے گا۔

آئیے عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص ساون کے مہینے میں ایک درخت لگا کر اپنے لئے صدقۂ جاریہ اور انسانوں کے لئے سہولت و آسانی مہیا کریں۔ مختلف این جی اوز اور فلاحی ادارے بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر اس موسم میں شجر کاری مہم کا اہتمام کریں ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ (آمین)