اسلام میں ’’شہید‘‘ کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ

July 12, 2024

پروفیسر خالداقبال جیلانی

اسلام کی تاریخ قربانیوں سے مزین اور شہادتوں سے رنگین ہے۔ اسلامی سال کی انتہاء حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کی قربانی سے اور اس سال کی ابتداء نواسۂ رسولؐ ،جگر گوشۂ بتولؓ، سیدنا امام حسین ؓ کی کربلا کے میدان میں اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کرنے سے ہوتی ہے۔

رتبہ ٔ شہادت کیا ہے؟ دین اسلام میں شہادت کی اہمیت اور فضیلت کیا ہے ؟ شہادت کیوں پیش کی جاتی ہے اور شہید کون ہے ؟ اس کامقام و منصب کتنا بلند ہے؟ یہ سب جاننا آج کی نسل ِ نوکے لئے بہت ضروری ہے۔

اسلام کی سربلندی اور اللہ و رسولﷺ کی تعلیمات کو زندہ رکھنے کے لئے مال و متاع کے نذرانے ، وطن ، اہل خاندان ، اہل و عیال سے جدائی و فراق کے ساتھ ساتھ اپنی حیاتِ عزیز اور جان قربان کر دینا اللہ و رسول ﷺکے نزدیک بہت اونچا مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ تن من دھن کے ساتھ اپنے اہل و عیال بیوی بچوں تک کی جان کی بازی لگا کر کفن بردوش ہو کر میدانِ جہاد میں جام شہادت نوش کرنا نہایت سعادت اور خوش بختی کا وسیلہ ہے۔

اللہ کے راستے میں جان دینے والا مرتا نہیں ، بلکہ حیاتِ ابدی ودائمی کی سرفرازی و سرخروئی سے بہرہ مند اور زندہ جاوید ہو کر انسانوں کے لئے نشانِ عظمت بن جاتا ہے۔ شہادت اور شہید کا قرآن و حدیث میں بہت بلند و ارفع مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں شہید انتہائی معزز و مکرم ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں شہادت کی عظمت و فضیلت کو متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتنی بڑی اور عظیم سعادت ہے اور مومن کو کس بلندی پر فائز کر دیتی ہے۔ مومن کی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی جان و مال اللہ تعالیٰ نے جنت کےعوض خریدلی ہے۔ فرمایاگیا کہ ’’یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جان و مال جنت کے بدلے خریدلئے ہیں کہ جنت انہی کی ہے، وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں۔ یہ سچا وعدہ ہے تورات ، انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے۔ لہٰذا اس سودے پر خوشی مناؤ جو اس نے تم سے کیا ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ:111)

سورہ ٔآلِ عمران میں فرمایا ’’ اگر تم اللہ کے راستے میں مارے جاؤ ،تب بھی اللہ کی طرف سے ملنے والی رحمت و مغفرت ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے جو یہ (کافر) جمع کر رہے ہیں ‘‘ (سورۂ آلِ عمران 157:) شہادت کی موت کو حیات ابدی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں، انہیں مُردہ مت کہو ، درحقیقت وہ زندہ ہیں ،مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعورو ادراک نہیں ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ154:)

شہید کی زندگی کا شعوری احساس دلاتے ہوئے اور انہیں رزق تک پہنچنے کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ’’ جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہر گز مُردہ نہیں سمجھنا ، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق پاتے ہیں ‘‘۔(سورۂ آل عمران) ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سی آیاتِ قرآنی میں شہادت کی عظمت اور شہید کی منزلت کو بیان کیا گیا ہے۔

خود رسول اللہ ﷺ نے بھی مختلف مواقع اور متعد د مقامات پر شہادت کی فضیلت اور شہید کی عظمت کو بیان کیا ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا ’’جو شخص بھی مرتا ہے اللہ کے ہاں اسے اتنی خیر ملتی ہے کہ وہ پھر دنیا کی طرف لوٹ کرجانے کو پسند نہیں کرتا۔ چاہے اسے دنیا کی تمام نعمتیں کیوں نہ مل جائیں، سوائے شہید کے ،کیوں کہ وہ شہادت کی فضیلت کو دیکھ چکا ہوتا ہے اس لئے وہ تمنا کرے گا کہ دنیا کی زندگی کی طرف لوٹ کر پھر دوبارہ شہادت کا مرتبہ پائے۔ (صحیح مسلم)

بعض روایات میں ’’دس مرتبہ ‘‘ کا ذکر بھی ہے۔(صحیح بخاری) اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بار بار لوٹے اور اللہ کے راستے میں باربار شہید ہو۔ آپ ﷺنے شہید کے خون کے قطرے کو اللہ کا پسندیدہ اور محبوب قطرہ قرار دیا، اور بھی متعدد احادیث میں شہادت کی فضیلت اور شہید کی عظمت کو بیان فرمایا۔

اللہ کے راستے میں جاں نثاری اور قربانی بھی بہت عظمت کی حامل ہے اور قربانی دینے والے جاںنثاروں کا مقام و مرتبہ بھی بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شہید کے بلند مقام و مرتبے کوبیان کرتے ہوئے فرمایا ’’سب سے افضل شہداء وہ ہیں جو جہاد کی پہلی صف میں شامل ہو کر جہاد کرتے ہیں اور وہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے ،جب تک کہ اللہ کی راہ میں شہید نہ ہو جائیں ، یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے بالا خانوں میں عیش و عشرت کے ساتھ رہیں گے۔ اُنہیں اُن کا رب دیکھ کر مسکرائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب رب کسی بندے پر کسی موقع پر مسکرا دے تو اس کا حساب کتاب نہیں ہوگا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

شہید کو ملنے والے عظیم انعامات اور خصوصی نواز شات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’شہید کے لئے اللہ کے پاس سات انعامات ہیں، خون کی دھار بہتے ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ وہ اپنا ٹھکانہ جنت میں دیکھ لیتا ہے، اسے ایمان کی پوشاک پہنائی جاتی ہے، حورعین میں بہتر ین سے اس کا نکاح کردیا جاتا ہے، عذاب قبر سے محفوظ کردیا جاتا ہے، بڑی گھبراہت سے محفوظ کر دیا جاتا ہے ، اس کے سر پروقار کا تاج سجایا جاتا ہے ۔اس تاج کا یاقوت دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کے خاندان کے ستر افراد کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (الجہاد لادبن ابی عاصم )

شہادت ایک عظیم مقام اور بلند درجہ ہے ۔ شہادت خوش نصیبی کا زینہ ہے۔یہ وہ سعادتِ خداوندی ہے کہ جس کی تمنا خود سرکار دو عالم ﷺ نے کی تھی۔ فرمایا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیاجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں (صحیح بخاری) حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓدعا فرمایا کرتے تھے ’’اے اللہ ،مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے حبیب ﷺ کے شہر مدینہ میں موت عطا فرما۔‘‘ (صحیح بخاری) یہی تمنا و جذبہ اور شوق شہادت تمام صحابہ کرام ؓ میں موجود تھا۔ جس سے غزوات و سرایا کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔

شہادت اور باوفا شہیدوں کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو راہِ وفا میں زندگی کا نذرانہ دینے والے اور جان جانِ آفریں کے سپرد کر کے سرخرو ہونے والوں میں نواسہ رسول ، جگر گوشۂ بتول سیدنا حضرت امام حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کا ذکر ضرور ہوگا۔ جنہوں نے اپنے خاندان اور باوفا ساتھیوں کے ساتھ میدانِ کربلا میں بے مثال، المناک اور قیامت خیز حالات سے گزر کر شہادت پائی اور شہیدانِ باوفا کی ایک لازوال تاریخ رقم کی۔

آپ ؓ کی شہادت بلاشبہ تاریخ کی نہایت المناک، درد ناک اور مظلومانہ شہادت ہے۔ ظالموں نے بڑی بے دردی سے خانوادۂ رسالت ﷺ کا خون بہایا، معصوم بچوں تک کو خاک و خون میں تڑپایا۔ لیکن اسلام کی بقاء ، سربلندی اور غلبۂ دین حق کے لئے آپ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور استقامت کے ساتھ اپنے حق پر مبنی موقف پر ڈتے رہے ۔

اسلامی تاریخ کے تمام شہداء بشمول حضرتِ امام حسینؓ سب اللہ کے نزدیک نہایت اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا غلبۂ اسلام تھا۔ ان سب نے دین اسلام کی بقاء ،سر بلندی اور غلبہ ہی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کیا۔ حضرت امام حسین ؓ اور دیگر تمام شہدائے اسلام نے امت کویہی سبق دیا کہ موت تو سب کو آنی ہے لیکن بہترین موت وہ ہے جو اسلام کی بجھتی ہوئی شمع کی حفاظت کرتے ہوئے آئے ۔