پاکستان کی محبت میں

February 24, 2014

مولانا فضل الرحمٰن چند روز پیشتر اپنے دو ساتھیوں مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹر طلحہ محمود کے ہمراہ کالا باغ تشریف لے گئے۔جہاں نواب آف کالا باغ ملک وحید خان کے مہمان تھے۔ ملک وحید خان حال ہی میں پی ٹی آئی کی جانب سے ضمنی الیکشن ہارے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن وہاں دو دن رہے اور انہوں نے ہرن کا شکار بھی کیا۔ مولانا کی روانگی کے بعد وہاں ایک میڈیا گروپ کے سربراہ تشریف لائے وہ کسی اور کے مہمان تھے۔ انہوں نے بھی شکار کیا۔ ان کے بارے میں مجھے تین سال پہلے نوید چوہدری نے جو بتایا تھا۔ اس کی تصدیق اب ہوئی ہے۔ اس سے آپ ان کے باخبر ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ایک طرف بدامنی اور بے یقینی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب مگر آپ کو ہمارے سیاستدان کے مشاغل کے بارے میں جان کر حیرت ضرور ہوگی۔ ملک میں ایک طرف لاشیں گررہی ہیں۔ کبھی پشاور میں اور کبھی کراچی میں معصوم انسانوں کو شہید کردیا جاتا ہے کبھی کسی ریل گاڑی کو دھماکے سے اڑایا جاتا ہے کبھی کسی اور شہر میں دھماکہ ہوجاتا ہے ۔ ڈاکے، چوریاں عام ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ جاری ہے اور ان حالات میں بھی لاہور اور کراچی میں فیسٹیول ہورہے ہیں۔ پچھلے دنوں سول سوسائٹی کی ایک خاتون فیسٹیول کی بہت تعریفکررہی تھیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ پہلے امن وامان تو فراہم کرلیں پھر بے شک خوشی کے گیت گائیں، لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے اور ہمارےارباب اقتدار گیت گارہے ہوتے ہیں، شکار کررہے ہوتے ہیں یا پھر شکار کروارہے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں نے پاکستان کا جو حال کردیا ہے اس سے بہتری کی خبریں دور ہوتی جارہی ہیں۔ پاکستان کو ویژنری لیڈر نہیں مل سکے۔ صرف ایک بھٹو آیا تھا، 85 کے بعد سے جو سیاستدان اسمبلیوں میں تشریف لارہے ہیں اکثریت کی روزی روٹی سیاست ہے۔ ان کے کاروبار بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن وہ حق سمجھ کر کرتے ہیں، اس میں کوئی پیچھے نہیں رہتا۔ جذبے سکڑ رہے ہیں ورنہ اس قوم کا جذبہ دنیا نے 1965 میں دیکھا تھا جب ہمارے جوانوں نے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے کتنے ہی ٹینک تباہ کردیئے تھے۔1965 میں سیالکوٹ ضلع کی حدود میں ہمارے بہادر فوجی جوان بڑی ہمت سے لڑے تھے انہوں نے دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیا تھا۔ اس جنگ میں کیپٹن پرویز مشرف بھی شامل تھے۔ جنہیں آج کل ’’غداری‘‘ کا مرتکب قرار دیا جارہاہے ۔ پرویز مشرف تو 1971 میں بھی محاذ جنگ پر بھارت کے خلاف سینہ سپر تھے۔ پاکستانی قوم کے جذبات ہمیشہ بلند رہے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے ملی نغمے گاگا کر جذبوں کو جوان رکھا۔ ان جنگوں میں ہماری قوم ہماری افواج کے ساتھ رہی۔71 میں بنگالیوں نے بغاوت کی۔ جتنے بنگالی افواج میں تھے وہ بھی باغیوں کیساتھ شامل ہوگئے۔ اس غداری کی سمجھ نہ آئے تو صرف راشد منہاس شہید کا واقعہ پڑھ لیجئے۔ جہاں تک مغربی پاکستان کا تعلق ہے دونوں جنگوں میں بھارت کو پسپائی ہوئی۔ 65 میں ڈیرہ بابا نانک سمیت بہت سے علاقے ہمارے قبضے میں تھے۔ 71 میں بھی یہی صورتحال تھی بھارت مشرقی پاکستان کے جنگی قیدی چھوڑنے کے لئے اس وقت تیار ہوا تھا جب پاکستان نے بھارتی مفتوحہ علاقوں کا خالی کرنے کا اعلان کیا۔ میں یہاں صرف ایک واقعہ رقم کردیتا ہوں کہ جب سوار محمدحسین شہید کی بیوہ کو نشان حیدر دیا جارہاتھا تو بھٹو نے ایک جنرل سے پوچھا کہ بھارت کا فلاں قلعہ فتح ہوگیاہے کیونکہ اس قلعہ میں بھارت کا سب سے بڑا اسلحہ ڈپو تھا۔ جنرل نے جواب دیا جی ہاں اس پر بھٹو کی آنکھیں فرط جذبات سے بھرآئیں۔ آنسو چھلکتے دیکھ کر جنرل نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ سر! خیریت تو ہے۔ اس پر بھٹو نے کہا ’’ بالکل خیریت ہے، دراصل اس قلعے کے بارے میں مجھے امام کعبہ نے فون کرکے پوچھا ہے کہ انہوں نے دنیا و آخرت کی اعلیٰ ترین ہستی کو خواب میں دیکھا‘ وہ پوچھ رہے تھے کہ پاکستانی وزیراعظم سے پوچھو کہ بھارت کا فلاں قلعہ اب تک فتح ہوا ہے یا نہیں؟
افواج پاکستان کے جذبوں کو سلام، پاکستان کی قوم کے زندہ جذبوں کو سلام، افسوس 1985ءکے بعد جو سیاستدان میدان عمل میں آئے۔ انہوں نے ملک پر توجہ نہ دی صرف اپنے آپ پر توجہ دی، ان کی وطن سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ان کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں۔ انکے کاروبار بیرونی دنیا میں ہیں۔ نکمے سیاستدانوں نے پورے نظام کو بے بس بنادیاہے۔ انہوں نے پورے نظام کو بے بس بنادیاہے۔ انہوں نے تمام ادارے تباہ کردیئے ہیں۔ ان کی سیاسی چالوں نے ترقی کو تنزلی میں بدل دیا ہے۔ ٹیلنٹ کو ضائع کررہے ہیں۔ ٹیلنٹ کے ضائع ہونے میں سیاستدانوں کا قصور نہیں تو کس کا ہے۔ زرخیز زمینوں کو بنجر بنارہے ہیں یہ لوگ پتہ نہیں سوچ سے عاری ہیں۔ ٹیلنٹ کا اندازہ آپ اس بات سے لگایئے کہ عمران خان نے نمل کالج ایک پسماندہ علاقے میں بنایا۔ جہاں زیادہ تر میانوالی، بھکر، خوشاب، چکوال اور اٹک کے طالبعلم تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کالج کی وآبستگی بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہے۔ جب اس کالج کا پہلا بیچ تیار ہوا تو عمران خان کو برطانیہ بلایا گیا۔ یونیورسٹی میں اور لوگ بھی آئے۔ دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے تعلیمی نظام سے وابستہ تمام لوگ جب اپنی اپنی جگہ تشریف فرما ہوئے تو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ ذہنی صلاحیت پاکستانی طالبعلموں کی ہے۔ دنیا کے کسی اور کونے سے ذہانت کا یہ ثبوت نہیں مل سکا ، عمران خان کہتے ہیں کہ میں وہاں سرپکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ تمام طالبعلم تو پاکستان کے اس علاقے سے ہیں جو انتہائی پسماندہ ہے اس کا مطلب ہے کہ پاکستانیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ۔ عمران خان صاحب واقعی پاکستانیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، آپکو حالیہ الیکشن میں پتہ چل گیا ہوگا جب پنکچر لگائے جارہے تھے، لوگوں نے دل کھول کر آپکی پارٹی کو ووٹ دیئے مگر جیت ’’ صلاحیتوں‘‘ کی نذر ہوگئی۔ خدا کرے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو وژن نصیب ہو، خدا کرے پاکستان ترقی کرے، پاکستان کو ان برے حالات تک پہنچانے کا سہرا نالائق سیاستدانوں کے سر ہے کسی اور کے نہیں۔
پچھلے دنوں این ڈی یو میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم ریشم کے مہمان تھے۔ ہماری میزبانی بریگیڈیئر مسرور اور ان کی بیگم بشریٰ مسرور کررہے تھے۔ یہ ایک شعری نشست تھی۔ یہاں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی خاص طورپر محبوب ظفر، فرین چوہدری اور فرح دیبا قابل ذکر ہیں۔ اپنے جاوید بھٹی بھی نظر آئے۔ مجھے جلدی تھی اور تقریب کا آغاز بھی تاخیر سے ہوا تھا سو مجھے یہ تقریب ادھوری چھوڑنا پڑی میں نے اس محفل کے لئے ایک نظم ’’ شہرآشوب‘‘ کے نام سے لکھی تھی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
وہ جو قافلوں کے ہجوم تھے
کسی اور سمت کو کھوگئے
وہ جو دل نشین تھے خال خال
کسی اور دیس میں جا بسے
وہ موسموں کی ادائیں تھیں
تھے جو رنگ خوشبو کے ہم سفر
وہ سفید ھوپ میں اڑگئے
وہ جو شہر شہر تھیں رونقیں
وہ لہو کی لہر میں بہہ گئیں
وہ جو گیت تھے وہ جو تھی غزل
وہ جو آنگنوں میں بہار تھی
وہ نہیں رہی مرے دیس میں
وہ جو سلسلے تھے وفاؤں کے
کبھی ٹوٹ کر کبھی چھوٹ کر
کہیں راستے ہی میں رہ گئے
وہ جولب نشین تھے گل بدن
کسی زرد رت میں اجڑ گئے
کہیں دور مجھ سے بچھڑ گئے
وہ جو چاند تھل پہ تھا مہرباں
کسی گرم رت میں نہیں رہا
مرے پاس جتنے بھی لعل تھے
کہیں دور جاکے بکھر گئے
مرے ماہ وسال بھی خواب بھی
کسی قتل گاہ کا نشاں ہوئے
وہ جو نقش ابھرے تھے آنکھ میں
کہیں اشک بن کے برس گئے