میڈیا: چیلنجز، خطرات اور حل

March 27, 2024

سچ پوچھیں تو یہ لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ ہم آج بھی عہد غلامی سے آزاد نہیں ہوئے ۔ وہی قوانین اور وہی طور طریقے۔ جو کالے قوانین تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے بنائے گئے تھے ۔ آج بھی ہمارے یہاں لاگو ہیں چاہے اس کا نشانہ صحافت کو بنانا ہو یا سیاسی مخالفین کو۔ بدقسمتی سے جتنے بھی سویلین حکمران آئے انہوں نے آمرانہ روش ہی اپنائی کیونکہ آمروں کو تو ایسے قوانین جیسے سیکشن یا دفعہ 144یا سیکورٹی ایکٹ چاہیے تھے سیاست یا صحافت کو کنٹرول کرنے کیلئے مگر ہمارے سویلین حکمرانوں نے تو آئینی طور پر کالے قوانین کو تحفظ دیا پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس، پیمرا اور پیکا جیسے قوانین نےآزاد اور خود مختار میڈیا کا راستہ روکا۔ بدقسمتی سے مالکانِ اخبارات اور میڈیا نے مدیران کا ادارہ ختم کر کے ذمہ دارانہ صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور غیر ذمہ دارانہ صحافت کا ’فلڈ گیٹ‘ کھل گیا کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ غلط یا غیر تصدیق شدہ خبر پر معذرت یا معافی مانگنا بھی چھوڑ دی۔ اس نے ریاست کا کام اور حکومتوں کا میڈیا اور آزادی صحافت کو کچلنے کا کام آسان کر دیا۔ چند سالوں سے ہمارے یہاں ایک ہائبرڈ نظام ہے جس کا دائرہ اب میڈیا تک بڑھا دیا گیا ہے یاد رکھیں پابندیاں ہمیشہ منفی رجحانات کا باعث بنتی ہیں۔

آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کی تین معتبر آوازیں جناب آئی اے رحمٰن ، عاصمہ جہانگیر اور نثار عثمانی صاحب تھے۔ تینوں کا متفقہ موقف تھا کہ صحافت کو درپیش چیلنجز اس وقت سے ہیں جب سے ہماری ریاست نے اپنی سمت کا تعین ایک ویلفیئر اسٹیٹ سے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ کیا۔ اب تو ہماری سمت رئیل اسٹیٹ ہے۔ یہیں بیانیہ اور رائے عامہ بناتے ہیں’ کنٹرول میڈیا‘ کے ذریعہ اور جو اس کو چیلنج کرے وہ ریاست دشمن، غدار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل اور پالیسیوں نے میڈیا کی ترقی کا راستہ روک دیا۔ بیشتر مالکان اخبارات اور میڈیا نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور یوں صحافت عوام کی ترجمانی سے زیادہ ریاست کی ترجمان بن گئی ۔

صحافت تو نام ہی خطرات سے کھیلنے کا ہے۔ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے صحافی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ جو لوگ بات کیا کرتے تھے وہ کسی جماعت کے ترجمان نہیں ہوتے تھے مگر بات دلیل سے اور خبر حقائق پر مبنی دیتے تھے۔ کردار کے غازی تھے اسی لیے بولنے کی جرات رکھتے تھے۔ بہت سے صحافی ان خطرات کا مقابلہ کرتے مارے گئے کسی کی لاش پہاڑوں پر ملی تو کسی کی دریا کنارے، کوئی سر بازار مارا گیا تو کسی کی اہلیہ شوہر کے قاتلوں کی نشاندہی کرنے پر ماری گئی۔ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو کبھی جان کا خطرہ تو کبھی جاب کا خطرہ نہ کوئی لائف انشورنس نہ جاب انشورنس۔ صحافت پرنٹ سے الیکٹرونک کے دور میں آئی تو خطرات میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ٹی وی اسکرین کا زمانہ آیا تو صحافیوں پر حملے بھی بڑھ گئے۔

رپورٹر ہو یا اینکر، حملوں کی زد میں رہے اسی لیے پچھلے 20 سالوں میں ایک سو سے زائد صحافی صرف ٹی وی سے تعلق کی بنا پر قتل ہوئے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو پچھلی تین دہائیوں سے جن خطرات کا سامنا ہے اس کا شاید ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ کئی صحافیوں نے صحافت چھوڑ دی کئی نے دنیا۔ ایک زمانہ تھا اور شاید اب بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں کہ حکومت کہتی ہے ہماری بات چھاپو اور اشتہارات لو، دہشت گرد اور انتہا پسند گروپس بندوق کی نوک پر خبریں لگواتے ہیں جب کہ ادارے کہتے ہیں یہ چھاپواور یہ نا چھاپو۔ اس صورتحال نے بہت سے صحافیوں کو ذہنی یا نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ان خطرات ، دھمکیوں کے ماحول میں وہ بھی کم تنخواہ اور وہ بھی وقت پر نہ ملے تو کیا صحافت ہو گی۔

سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا ان تیز اور طوفانی ہوائوں کی مانند ہے جس پر آپ پابندی نہیں لگا سکتے ہیں اس سے بچنے کے انتظامات کر سکتے ہیں اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی جواب ہے برسہا برس کی پابندیوں کا ، لوگوں سے حقائق چھپانے کا ، اطلاعات تک رسائی نا ہونے کا۔ اس نے دنیا میں سیاسی مزاحمتی تحریکوں کا بیانیہ بدل دیا جس نے ہر آدمی کو اپنے تئیں صحافی بنا دیا۔ بس ہاتھ میں موبائل ہو۔ چھوٹا کیمرہ اور مائیک ہو، لو جی آپ صحافی بن گئے۔

آخر میں اس سب کا حل کیا ہے۔ وہ زمانہ جب صحافی کی بنیادی تعریف یہ ہوتی تھی کہ اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ اس کی تنخواہ ہو۔ وہ کسی خبر کو حقائق کی بنا پر پیش کرے مکمل تصدیق کے بعد۔ اس سب کا ذمہ خود اخبار کا مدیر لیتا تھا اور ذمہ داری بھی اگر کوئی خبر حقائق کے منافی ہو لہٰذا آج بھی اگر صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی تنخواہوں میں وقت کے ساتھ ساتھ مناسب اضافہ ہو اور مدیران کے ادارے کو بحال کیا جائے ۔ ایڈیٹر اور ٹی وی کے نیوز ہیڈ بااختیار اور ذمہ دار ہوں تو کم ازکم ان دو میڈیم میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

میڈیا مالکان کی تنظیمیں مدیران اور صحافی تنظیمیں ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرنے والوں سے بات چیت کا عمل شروع کریں اور مشترکہ کام کے ضابطے بنائے جائیں۔ قوانین اسٹیک ہولڈرز خود بنائیں اور عمل درآمد کا مکینزم بھی۔ فیک نیوز یا کسی کی ذاتی زندگی وغیرہ کے حوالے سے خبروں ،آڈیو اور ویڈیو لیک بنا تصدیق چلانے کے اپنے نقصانات ہیں مگر اس کی روک تھام کا واحد طریقہ اچھے مضبوط اور سخت ہتک عزت کے قوانین ہیں جو دنیا کے بہت سے ممالک میں لاگو ہیں۔

صحافی کو بھی اپنی سمت کا تعین خود کرنا پڑے گا۔ مزاحمتی صحافت کو مضبوط اور درباری یا لفافہ صحافت کو مسترد کرنا پڑے گا۔ جس کی ابتدا صحافتی تنظیموں کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ صحافی کون ہے اور صحافت کیا ہے کی بحث کاآغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی اے رحمٰن صاحب نے اپنے ایک آخری انٹرویو میں کہا تھا ’’یہ میرا عقیدہ ہے کہ لوگ مستقل غلامی کو قبول نہیں کرتے کیونکہ خیالات کے بہائو کو روکا نہیں جا سکتا۔ ‘‘ اس کی تازہ مثال غزہ میں ملے گی۔ کئی سو صحافی مارے گئے اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے۔ مغربی میڈیا بے نقاب ہوا مگر آج بھی دنیا بھر کے صحافی وہاں جاتے ہیں۔ رپورٹ کرتے ہیں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کے سچ کہیں مرنہ جائے۔ سچ کو زندہ رکھنے کا نام ہی صحافت ہے۔