کوئی غلط فہمی جنم نہ لے

March 27, 2024

یوم پاکستان کی پریڈ اور اس سے منسلک تقریبات کو صرف اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ پاکستان بطور ریاست قرار داد لاہور ( پاکستان ) کو یاد کر رہا ہے یا کوئی آئینی سنگ میل عبور کیا گیا تھا اور اس کامیابی پر اظہار فخر کے طور پر اس دن کو منایا جا رہا ہے بلکہ اس میں کئے گئے ہر اقدام یا گفتگو کی پاکستان کی قومی پالیسی میں واضح اہمیت ہوتی ہے ۔ پاکستان ڈے پریڈ میں چینی افواج کے دستے کی شرکت نے اس بات کو زیادہ دل چسپ اور دیگر عالمی طاقتوں کیلئے اہم بنا دیا ہے کہ پاکستان چین سے فوجی شراکت داری کو باقاعدہ مزید وسعت دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ 23 مارچ کو ہی مجھ سے میرے ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ امریکی دوست نے رابطہ قائم کیا اور دوران گفتگو ان کا بنیادی سوال یہ ہی تھا کہ پاکستان اس اقدام کو صرف علامتی طور پر رکھنا چاہتا ہے یا یہ دنیا کیلئے ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اب فوجی طور پر چین کے مزید قریب ہونے کی سوچ پر گامزن ہو چکا ہے ۔ بلاشبہ پاکستان اور چین کے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے تعلقات دونوں ممالک کیلئے حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کو اس سے بھی زیادہ توانا ہونا چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین بھی اپنے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی نزاکت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ پاکستان اور دنیا بھر کیلئے امریکہ کی اہمیت مسلمہ ہے اور میرے امریکی دوست یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان کو وقت ضائع کئے بنا امریکہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہئے بلکہ آن بورڈ لینا چاہئے اور اگر سفارتی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا جائے تو یہ ممکن بھی ہے ورنہ یہ حقیقت پاکستان کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ امریکہ میں اس حوالے سے بد گمانی بڑھ سکتی ہے ۔ اس صورت حال کا ابتدائی منظر نامہ پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکہ میں سماعت میں ہے اور اگر یہ صورت حال بدستور جوں کی توں رہی تو اس سے مستقبل قریب میں پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پر سکتا ہے ۔ ابھی تو اس سماعت سے زیادہ اہمیت دنیا نے بھارت کی جانب سے دیگر ممالک میں سکھوں کے قتل کے معاملہ کو دی ہے۔

مگر پھر بھی پاکستان کے حوالے سے سماعت کی ایک اپنی حیثیت ہے ۔ ویسے بھی گزشتہ کچھ عرصہ میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی پاکستان کی سیاست میں امریکہ کو گڈ مڈ کرنے کے رویے نے امریکہ کے اعلیٰ سطح کے حکام میں پاکستانیوں کے حوالے سے ایک تشویش پیدا کردی ہے ۔ جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو امریکی پاکستانیوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے اس راگ کو الاپنا شروع کردیا اور امریکہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا حالاں کہ وہ امریکہ میں ہی مقیم تھے ۔ امریکیوں سے اس دوران جب بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک بات بیان کی کہ اس رویے نے امریکہ میں اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ امریکی پاکستانی کوئی بھی غلط فیصلہ امریکہ کے حوالے سے کر سکتے ہیں ۔ ایک نے تو یہاں تک کہا کہ جو پاکستانی امریکا میں رہائش پذیر ہیں وہ اپنی مرضی بلکہ دیرینہ خواہش کے سبب امریکہ میں ہیں ، ہم کوئی ان کو زبر دستی تو امریکہ نہیں لے کر آیا ہے ۔ اس تمام صورت حال میں پاکستان کو بہت پھونک پھونک کے قدم اٹھانا چاہئے ۔ کامیاب خارجہ پالیسی تو سادہ الفاظ میں یہ ہوتی ہے کہ اپنے دشمنوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے اور دنیا بھر سے زیادہ سے زیادہ معاشی مفادات کے حصول کو ممکن بنایا جائے ۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہ بالکل درست طور پر کہا ہے کہ بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی پر غور کرنا چاہئے کیوں کہ یہ صرف بھارت کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ پاکستان کے مفادات بھی اب اس سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس حوالے سے کسی شک کی سرے سے گنجائش موجود نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے بڑے کارو باری افراد باہمی تجارت کی بحالی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر کاروباری مفادات یا تجارتی سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا جائے تو کشمیر سمیت تمام تر مسائل کو حل کرنے کی جانب بڑھنا ممکن ہے ۔ اور تجارتی سفارت کاری کے حوالے سے وزیر خارجہ اسحاق ڈار معیشت اور سفارت کاری کے حوالے سے تجربہ اور معلومات رکھنے کے باعث اس پر بہت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ویسے بھی اس وقت ہر طرف یہ ہی غلغلہ مچا ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام دوست ممالک امداد دینے کی بجائے کاروبار کو وسعت دینے کی سوچ کو زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں ۔ پاکستان ڈے پریڈ میں سعودی عرب کے مہمان کی آمد بھی انہی تصورات کو مضبوط کر رہی ہے کہ سعودی عرب بھی اب زیادہ توجہ پاکستان میں سرمایہ کاری پر ہی رکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ میں فلسطین کے حالات کے باوجود بڑی تزویراتی تبدیلیوں کے لئے کوشش جاری ہے۔ ابھی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سعودی عرب سے اسرائیلی تعلقات کے قیام کے حوالے سے پھر امید ظاہر کی ہے ۔ چین ، امریکہ ، بھارت سے لے کر مڈل ایسٹ تک جو ہو رہا ہے اور جو ہو سکتا ہے اس سب پر ہماری گہری نظر ہونی چاہئے تا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہم ہر قدم بر وقت اٹھانے کے قابل ہوں۔