دہشت گردی کی نئی لہر…!

March 28, 2024

خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی انجنیئرز کی گاڑی حملے کی زد میں آکر گہری کھائی میں جاگری، مبینہ خودکش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی شہری اور ایک پاکستانی ڈرائیور جان کی بازی ہار گئے، بشام حملے کی پرزور مذمت صدر مملکت سمیت اعلیٰ حکومتی سطح پر کی گئی، وزیراعظم پاکستان بذاتِ خود تعزیت کیلئے ہنگامی طور پر اسلام آباد میں چینی سفارتخانے گئے جبکہ چین نے بزدلانہ حملے کے ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک دن قبل تربت میں نیول بیس پر دہشت گردانہ حملے میں افواج پاکستان کے بہادر جوان نے جامِ شہادت نوش کیا، سیکورٹی اداروں کی بروقت اور موثر جوابی کارروائی سے دہشت گردوں کے بزدلانہ عزائم پورے نہ ہوسکے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ایسے تمام ہولناک حملوں کے تانے بانے افغانستان میں روپوش شدت پسندانہ عناصر سے ملتے رہے ہیں۔ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میںحالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات سے ثابت ہوتاہے کہ پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردی کا عفریت پھرسے سر اٹھارہا ہے۔ چند دن قبل واٹس ایپ پر پر ایک ویڈیو کلپ میری نظر سے گزرا جس میںمسنگ پرسن دہشت گردی میں ملوث پائے گئے۔ پاکستان میں مِسنگ پرسنز کا ایشوسب سے پہلے جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں نائن الیون کے بعد منظرعام پر آیا جب افغانستان پرامریکہ نے اتحادی قوتوں کے ہمراہ حملہ کیا، طالبان سے نظریاتی وابستگی رکھنے والوں نے افغانستان کا رْخ کیاجبکہ یہاں انکے اہل خانہ نے انہیں مسنگ پرسن قرار دیدیا ، ہزاروں کے لشکر میں سے چند ہی صحیح سلامت وطن واپس آسکے ، باقیماندہ آج بھی لاپتہ ہیں ،بیتی کیمپس گئے اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کے خلاف حملے کرتے رہے، ایسی بہت سی اطلاعات سامنے آئیں کہ کچھ بتائے بغیر گھربار چھوڑ جانے کے باعث انکے غمزدہ اہل خانہ کی طرف سے مِسنگ قرار دیکر حکومت پاکستان سے انکی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا۔کم و بیش یہی صورتحال افغانستان اور ایران سے ملحقہ صوبہ بلوچستا ن میں دیکھنے میں آئی جب جنرل مشرف کے دورمیں پہاڑوں میں احتجاجاََ مقیم بلوچ رہنماء اکبر بگٹی کو میزائل حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ نائن الیون کے بعد عالمی قوتوں کی جانب سے بلوچستان کو گریٹ گیم کا حصہ بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں، میڈیا پر ایسی رپورٹس سامنے آئیں کہ بلوچستان میں کم از کم تین عالمی ممالک کے خفیہ ادارے سرگرم ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے معصوم بلوچ شہریوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں،صوبے میں شورش برپا کرنے کیلئے علیحدگی پسند عسکری گروہ پنپنے لگے جنہوں نے صوبے میں باہر سے آنے والوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کردیا، بہت سے المناک واقعات میں بسوں سے بے گناہ مسافروں کو قومی شناختی کارڈپر بلوچستان سے باہر کا پتا درج ہونے پرسرعام موت کے گھاٹ اتارا گیا، ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین بھی دہشت گردی کی لہر کا نشانہ بنے، لاپتہ افراد کی واپسی کیلئے آوازیں بلند ہونے لگیںتو بلوچستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے اس ایشو کو اپنے منشور کا حصہ بنالیا جبکہ قومی سطح کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ملکی دفاع کیلئے کوشاں سیکورٹی اداروں کے موقف کی ہمنوا ہیں کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ افواج پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی منظم سازش ہے تاکہ معصوم شہریوں کو ریاست پاکستان سے متنفر کرکے عوام کو حکومتی اداروں کیخلاف کیا جائے۔تفتیشی عمل میں بے گناہ ثابت ہونے والے بہت سے گمشدہ شہری دو تین ماہ بعد خود ہی واپس گھر لوٹ آتے ہیں،تاہم اس حوالے سے عدالتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج تک ایک بھی مسنگ پرسن واپسی کے بعد عدالت اپنا موقف دینے پیش نہیں ہوا۔ نائن الیون کے دس سال بعد2011ء میں جبری گمشدگیوں کا کھوج لگانے کیلئے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ،مذکورہ کمیشن بھی مسنگ پرسنز کی واپسی کے دعویٰ کی تائید کرتا ہے۔ مسنگ پرسنز کے ایشو پر آج بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ یہ لوگ کہاں گئے،کیا وہ ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر کر ملک چھوڑ گئے،کیا یورپ جانے کے خواب آنکھوں میں سجائے گہرے سمندوں کی نذر ہوگئے، کیا دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ چڑھ گئے ،کیا وہ پڑوسی ممالک میں قائم تربیتی مراکز میں موجود ہیں؟ملک میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مسنگ پرسنزکا ملوث ہونالمحہ فکریہ ہے، چند ماہ قبل سرحدی کشیدگی کے دوران ایران کی سرزمین پر غیرایرانی شہریوں کی موجودگی کی تصدیق بھی ہوئی۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جو افراد ہمارے ملک کے سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہوتے ہیں،وہ تفتیش میں بے گناہ ثابت ہونے کے بعد واپس آجاتے ہیں، تاہم جو اپنی مرضی سے باہر گئے یا کسی بیرونی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھ گئے، انکے حوالے سے سیکورٹی اداروں کو ہدف تنقید بنانا درست نہیں۔اس وقت ہماری قومی ترجیحات میں دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کرنا سرفہرست ہونا چاہئے اور تمام محب وطن پاکستانیوں کو اکٹھا ہوکر ملکی اداروں کے خلاف پراپیگنڈامہم کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)