بدامنی ٹیکس، مہنگائی اور بے بس عوام

March 29, 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کوتنخواہیں بھی قرضے کے پیسوں سے دے رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے ایک اور بھاری قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں سے ملکی معاشی صورتحال واضح ہوگئی ہے کہ ملک کس سطح کے بحران کاشکار ہے اور آنیوالے دنوں میں مہنگائی کتنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ابھی تو عوام آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کو بھگت رہے ہیں۔ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات نے عام آدمی کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ بجلی ، گیس کے بلوں اور پیٹرول وڈیزل وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے روزمرہ استعمال کی اشیا کے نرخ خودبخود بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا ہر شہری بلکہ ہر بچہ تین لاکھ 75 ہزار روپے کا مقروض ہے اور اگر بیرونی قرضوں پر سود کو دیکھا جائے تواس رقم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو قرضے پاکستان کو واپس کرنے ہیں۔ پاکستان کو رواں مالی سال بیرونی قرضوں کی مد میں 25ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم کی ادائیگی کرنی ہے۔ اگلے سال قرضوں کی ادائیگی کی رقم بڑھنے کی وجہ سے28ارب ڈالر ادا کرنے ہونگے ۔ یعنی سود کی رقم ملا کر ادائیگی میں تین ارب ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے۔

وزیر اعظم کے بیان کے پیش نظر جب تنخواہوں کی ادائیگیاں قرضوں سے ہورہی ہیں تواس کا مطلب صاف ہے کہ ملکی پیداوار اور حکومتی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں میں سب سے بڑا حصہ آئی ایم ایف ، اے ڈی بی اسلامی ترقیاتی بینک اورعالمی بینک کا ہے جو44فیصد بنتا ہے۔ کسی بھی ملک کے ذمہ قرضوں کا حجم اس ملک کے جی ڈی پی سے کم ہونا چاہیے لیکن اندازہ لگائیں کہ اس وقت پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حجم68فیصد جبکہ جی ڈی پی 60فیصد سے کم ہے جو معاشی مقررہ اصولوں اور معیار کے حساب سے نہایت پریشان کن صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اس ایک سال میں دوبار پاکستان پر واجب الادا اپنا قرض ری شیڈول کیا ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ مزید قرض بھی ری شیڈول ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہوگا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترغیب دینی ہوگی کہ وہ ترسیلات زر کو بڑھائیں ۔ اوورسیز پاکستانیوں کو جو بعض ملک دشمن عناصربینکوں کے ذریعے رقوم بھیجنے اور ترسیلات زر سے روکنے کیلئے اکسارہے ہیں اس گھنائونے عمل کا توڑ کرنے کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے قابل رغبت منصوبے کی تیاری اور تشہیر کی بھی شدید ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے موثر اقدامات، گھریلو صنعتوں کے فروغ میں مدد، کا شتکاروں کی امداد وحوصلہ افزائی اور معدنیات خصوصاً قیمتی پتھروں کی برآمد پر خصوصی توجہ دینے اور اس شعبہ سے وابستہ افراد کو سہولیات دینے جیسے اقدامات ہی بیرونی قرضوں سے نجات اور ملکی معیشت کی ترقی کے ضامن ہیں۔

افسوناک صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ بالا اقدامات کے بجائے تقریباً ہر حکومت بیرونی قرضوں پر انحصار کرکے ملک کی معاشی صورتحال کو مزید کمزور کرتی ہے۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے ایسی صورت میں ملک کے اندر سرمایہ کار ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کار کس طرح یہاں کا رخ کریں گے۔ موجودہ برسر اقتدار جماعتوں نے ڈیڑھ سال پہلے بھی حکومت کی ہے جس کو عرف عام میں پی ڈی ایم حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حکومت کا نعرہ یہ تھا کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے آئے ہیں لیکن پی ڈی ایم حکومت نے بہتری کے بجائے عام آدمی کو ہی دیوالیہ کردیا۔ کوئی شک نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سے اپنے دورحکومت میں چند اہم اور بنیادی غلطیاں ہوئی تھیں۔مثلاً آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ توڑنا، حقیقت سے خالی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ، اپنے بعض لوگوں کی مالی بے ضابطگیوں سے صرف نظر کرنا، ضدوانا کواپنی پالیسی بنانا، امریکہ اور دوست ممالک سے تعلقات کو خراب کرنا، کشمیر پر کمزور موقف اختیار کرنا ، مہنگائی کو ضروری سمجھنے پر غیر منطقی دلائل دینا، سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا اور انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا۔ ان تمام غلطیوں کے پیچھے ان کی طبیعت اورناتجربہ کاری تھی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بعض قریبی لوگ اپنے اپنے مفادات کی خاطر ان کو غلط مشورے دیتےرہے ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم والوں کو اپنے مقدمات ختم کرنے اور اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کی جلدی تھی ورنہ آج جو حال بالخصوص مسلم لیگ(ن) کا ہوا ہے اس سے بدتر حال پی ٹی آئی کا ہوتا۔

موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی منشا اور احکامات کے مطابق ٹیکس کا مزید بوجھ ڈال کر عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اصل ٹیکس دہندہ تو صرف دوطبقے ہیں ایک عام آدمی اور دوسرا تنخواہ دار ۔ جب حکومت کسی بھی پیداواری صنعت یا کاروبار پر ٹیکس لگاتی ہے تو اس چیز کی وہ قیمت بڑھا کر ٹیکس اسی میں ایڈجسٹ کرلیتے ہیں جس کی ادائیگی عام آدمی خریداری کی صورت میں کرتا ہے اسی طرح جو لوگ بجلی، گیس کے بل نہیں دیتے یا ان کو مفت بجلی گیس ملتی ہے یا جو بجلی گیس چوری کرتے ہیں ان کے بلوں کے پیسے بھی وہ عام آدمی بھرتا ہے جو بل ادا کرنے پر مجبور ہوتاہے ورنہ بجلی گیس والے دوسرے دن آکر ان کے میٹر اتارلیتے ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کے اثرات بھی عوام پرہی پڑتے ہیں۔ کوئی بھی حکومتی وزیر، مشیر یا خودجناب وزیر اعظم پچاس ہزار کمانے والے کے مہینے کا خرچہ، کرایہ، بل وغیرہ اس رقم میں پورا کرکے دکھائیں۔ آج تک کسی حکومت نے نہ تو ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے کوئی عملی اقدامات کئے ہیں نہ ہی سرمایہ داروں سے ٹیکس وصول کئے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی بھی عوام کریں ٹیکس بھی عوام دیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔