2 مئی کے انتخابات کے مشاہدات ۔۔۔

May 08, 2024

خیال تازہ … شہزاد علی
برطانیہ میں 2مئی کوکونسلوںکے انتخابات ہوئے جن میں 2000سے زیادہ نشستوں پر مقابلہ ہوا کچھ میٹرو پولیٹن باروز جیسے مانچسٹر سٹی کونسل کے لیے تھے اور کچھ یونٹری اتھارٹیز جیسے برسٹل یا ڈورسیٹ کے لیے تھے۔ دونوں ڈھانچے واحد درجے کے حکام ہیں جن کی ذمہ داری کونسل کی تمام سروسز بشمول تعلیم، سماجی نگہداشت، کوڑا اٹھانا اور پارکس ہیں 58ضلعی کونسلوں کے لیے انتخابات ہوئے، نچلے درجے کے حکام جن کی ذمہ داریاں زیادہ محدود ہیں لیکن ان کے دائرہ کار میں بھی منصوبہ بندی، رہائش اور ری سائیکلنگ جیسی اہم سروسز شامل ہیں۔ ضلعی کونسلیں عام طور پر ہر سال اپنی ایک تہائی نشستوں کا انتخاب چار سالہ سائیکل پر کرتی ہیں اور چوتھے سال میں بالائی درجے کی کونسلیں عموماً کاؤنٹی کونسل کا انتخاب کرتی ہیں۔ لندن میں لندن اسمبلی کے ساتھ ساتھ لندن، گریٹر مانچسٹر اور لیورپول کے 11 میئرز کے لیے انتخابات ہوئے۔ لندن مئیر کے انتخابات میں لندن کے پہلے پاکستانی نژاد میئر صادق خان کی تیسری بار میئر کے انتخابات میں شاندار کامیابی نے کئی سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت سے دوچار کر دیا ہے بعض مبصرین مسلسل یہ تاثر دیتے رہے کہ اس بار صادق خان کو سخت مقابلے کا سامنا ہوگا مگر لندن کے مضافاتی علاقوں میں مرکز میں برسراقتدار کنزرویٹو پارٹی کے بڑھتے ہوئے زور کے باوجود صادق خان نے اپنی مدمقابل سوزین ہال سے 276,000کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی انہیں کل ووٹ کا 44 فیصد حصہ ملا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ اس الیکشن کے دوران کنزرویٹو پارٹی نے تسلسل سے صادق خان کے خلاف منفی مہم چلائے رکھی مگر اس مہم کا الٹ اثر ہوا اور صادق خان دیگر جماعتوں کے ووٹروں کو بھی اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ رائے دہندگان کی واضح بھاری اکثریت نے صادق خان کی سابقہ شاندار کاررکردگی کو ملحوظ رکھا اور ان کے’’ محفوظ، منصفانہ اور سرسبز‘‘ دارالحکومت کے انتخابی وعدوں پر مہر ثبت کر دی اور شاندار کامیابی سے ہمکنار کر دیا لندن کے ووٹروں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ امیدوار کو صرف کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں اور کسی بھی اقلیتی، نسلی اور مذہبی امتیاز کو روا نہیں رکھا۔پولیس اور کرائم کمشنرز کے بھی الیکشن منعقد ہوئے انتخابات اہم رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیبر پارٹی Hartlepool، Rushmoor، Hyndburn، Milton Keynes، Tamworth اور Adur میں لیبر کے لیے مثبت نتائج تھے۔ انہوں نے نیویٹن اور بیڈ ورتھ کی روایتی بیل ویدر کونسل میں بھی 15 نشستیں حاصل کیں، جو لیبر کے پالیسی سازوں کے لیے باعث اطمینان ہوگا تاہم قدرے گہرائی سے مشاہدہ بتاتا ہے کہ لیبر پارٹی اگرچہ بھاری اکثریت سے جیتی ہے جس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ملک کے اکثریت رائے دہندگان نے کنزرویٹو پارٹی کی تسلسل سے حکومتوں کے خلاف اب لیبر کو مینڈیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم گہرائی سے مشاہدہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اس کے لیڈر سر کیر سٹارمر کی فلسطین اور اسرائیل سے متعلق تنازعہ پر جانبدار موقف کی وجہ سے دنیا بھر میں آزادی حقوق انسانی، اور مساوات کے علمبردار لیبر پارٹی کے حلقوں نے کسی نہ کسی انداز میں پارٹی کے ووٹ کو متاثر کیا ہے چاہے وہ آزاد امیدواروں کی شکل میں ہو یا جارج گیلوے کی پارٹی کی صورت میں یا بعض جگہوں پر لبرل ڈیموکریٹس کی سپورٹ اس تناظر میں لیبر پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پارٹی کی سنئیر لیڈر شپ کو پارٹی فاصلہ رکھنے والے ممبران سے فوری انگیج ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ کنزرویٹو پارٹی: ان انتخابات میں حکمران کنزرویٹو نے مشکل سے ہی کوئی فائدہ اٹھایا، بجائے اس کے کہ ملک بھر میں کونسل کی کئی نشستیں گنوائیں بشمول کچھ اہم نشستوں پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے باوجود، ہارلو اور فریہم میں ٹوری اکثریت رکھنے سے کچھ راحت ملے گی۔ کنزرویٹو پارٹی کو اس شکست سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے اور اپنی پارٹی کو عوام دوست بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ عام انتخابات میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔ لب ڈیم: واٹفورڈ، ویسٹ آکسفورڈ شائر، ٹنبریج ویلز اور ونچسٹر میں حاصلات نے سینٹرسٹ پارٹی کو پرامید ہونے کی وجوہات بتا دیں۔ انہوں نے وسیع تر جنوب مغرب میں کونسلرز میں اضافے کا بھی لطف اٹھایا، جو پہلے لب ڈیم کا گڑھ تھا۔پارٹی عہدیداروں کا خیال ہے کہ نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جن سیٹوں پر جیتنا چاہتے ہیں، یعنی ٹوری وارڈز کو انہوں نے جو ہدف بنانے کی حکمت عملی اپنائی تھی وہ کام کر رہی ہے۔ لوکل انتخابات میں لبرل ڈیموکریٹس نے جس طرح شاندار کامیابی حاصل کی ہے اس سے عام انتخابات میں بھی اس پارٹی سے متعلق لوگوں میں اعتماد بڑھے گا _ گرین : گرینز ہیسٹنگز میں سب سے بڑا سیاسی گروپ بن گیا، جہاں انہیں آٹھ نشستیں حاصل ہوئیں۔ انہوں نے انگلینڈ بھر میں دیگر نشستوں پر بھی گراؤنڈ حاصل کیا، بشمول نورویچ، برسٹل اور ساؤتھ ٹائنسائیڈ۔ میں کامیابیاں حاصل کیں _ گرینز کا بھی اعتماد اب بڑھے گا۔گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے نتیجے میں اب اس پارٹی کے پاس انگلینڈ بھر میں کونسلرز کی ریکارڈ تعداد ہے۔ برسٹل میں، گرینز نے دستیاب 70 میں سے 34 سیٹیں جیت کر مجموعی طور پر کنٹرول حاصل کرنے سے محروم کر دیا۔ لیبر نے 21 نشستیں حاصل کیں۔ کارلا ڈینئیر، انگلینڈ اور ویلز میں پارٹی کی شریک رہنما، جو عام انتخابات میں ڈیبونیئر کے خلاف انتخاب لڑ رہی ہیں، نے کہا کہ یہ نتائج کا ’’حیرت انگیز‘‘ مجموعہ رہا ہے۔ آزاد: الیکشن میں آزاد امیدواروں نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کی سب سے قابل ذکر مثال اولڈہم اور کرکلیز کی کونسلیں تھیں، جہاں آزاد امیدواروں نے نشستیں حاصل کیں اور کونسلوں کو لیبر کنٹرول سے باہر دھکیل دیا۔ ریفارم نے صرف دو سیٹیں جیتی ہیں، دونوں ہیونت میں، حالانکہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس کے ملک بھر میں 316امیدوار کھڑے کیے تھے۔