کیا دنیا اپنے آپ بنی؟

May 20, 2024

ایک سوال بار بار اٹھتا ہے : سائنس اور مذہب میں کیا کچھ مشترک ہے اور کس قدر وہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں ۔مذہب کیا ہے ۔ مذہب یہ ہے کہ جس ہستی نے یہ دنیا تخلیق کی ، وہ انسانوں سے کچھ مطالبے کر رہی ہے کہ زندگی ایسے گزارو۔ میری یاد کیلئے نماز قائم کرو ۔ سائنس کیا ہے۔ سائنس اس عمل کو سمجھنے کا نام ہے ، جس کے ذریعے یہ کائنات تخلیق ہوئی ۔ سیارے اور ستارے اجسام کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ، یہ بات جیسے ہی انسان کی سمجھ میں آئی، اس نے سائنس کی کتاب میں لکھ لی ۔ اسی طرح اس نے فزکس کے اصول لکھے ۔ زندہ اشیا کے بارے میں جو سمجھ میں آیا اور ثابت ہو گیا ، وہ بیالوجی کی کتابوں میں لکھ لیا۔

جس ذات نے یہ کائنات اور انسان سائنسی عمل میں تخلیق کیا ، وہی ذات انسان سے جب کلام کرتی ہے تو وہ اسے اپنی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سائنس کے بارے میں بھی بات کرتی ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے ، پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا ۔ آپ خدا کو روک نہیں سکتے کہ وہ مذہب کی بات کرے، سائنس کی بات نہ کرے ۔ وہ کہتاہے کہ پانی سے ہم نے ہر زندہ شے کو پیدا کیا۔ پھر وہ فرماتا ہے کہ آسمان کو ہم نے اپنے زورِ بازو سے پیدا کیا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ آسمان کو ہم سکیڑ رہے ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ زمین اور آسمان بکھرے ہوئے تھے، ہم انہیں اکھٹا کر رہے ہیں ۔

سائنس اور مذہب کے جھگڑے کا ہزاروں سالہ تاریخی پسِ منظر ہے ۔تاریخی طور پر مذہب کے ٹھیکیداروں نے سائنسدانوں کو بڑی پھینٹی لگائی ۔مغرب کا دنیا پہ غلبہ ہے ۔ مغرب کا مقدمہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستی سمیت انسان کو ہر آوارگی کی اجازت ہونی چاہئے ۔ خدا کون ہوتاہے ہمیں روکنے والا ۔یہ ہزاروں سالہ مذہبی جبر کا ردّعمل ہے ۔

مغرب میں جب چرچ کوحکومت کرنے کا موقع ملاتو وہ طالبان اور القاعدہ ہی ثابت ہوئے ۔ گیلیلیو کی مثال سب کے سامنے ہے۔اس نے بتایا کہ کرّہ ء ارض کائنات کا محور و مرکز نہیں تو چرچ نے اسے نظر بندی کی موت مار دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقے نے مذہبی کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں کر دی تھیں۔ سائنس والوںکیلئے یہ آسان تھا کہ مسخ شدہ الہامی کتابوں کی کسی بات کو غلط ثابت کیا جا سکے۔ آج بڑے سائنسدان وہاں مذہب کا تمسخر اڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

سائنس نے سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق کو سمجھا۔ ایڈون ہبل نے 1925ء میں یہ ثابت کیا کہ کائنات ایک دھماکے سے وجود میں آئی۔ یہ دھماکہ اس قدر خوفناک تھاکہ آج بھی کہکشائیں خوفناک رفتار سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں ۔

خدا آسمان اور زمین کی تخلیق پر بھی بات کرتا ہے مگر سادہ الفاظ میں ۔ زمین اور آسمان ملے ہوئے تھے، پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا ۔ خطاب عام انسانوں سے ہے ، سائنسدانوں سے نہیں ۔ قرآن صرف سائنس پہ مشتمل نہیں ۔ فوکس یہ ہے کہ نماز پڑھنی ہے، والدین کا احترام کرنا ہے ۔

اب جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے پہلے کے کچھ سائنسی نظریات تھے، جو کہ قرآن میں درج ہوئے۔ ان سے میرا یہ سوال: پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں سائنس میں ان گنت مواقع پر تصحیح ہو چکی ہے ۔ ارسطو اور بطلیموس کے یہ نظریات مکمل طور پر ردّ ہو چکے کہ کرّہء ارض کائنات کا محور و مرکز ہے۔مذہب نے صرف وہی کچھ کیوں بیان کیا ، جو عین حقیقت ہے ۔ اس وقت کے رائج سائنسی نظریات تو یہ تھے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے مگر خدا یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز اپنے اپنے مدار میں ایک وقتِ مقررہ تک گردش کر رہی ہے۔کل فی فلک یسبحون۔

قرآن زیادہ تر ہدایات پر مشتمل ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے اگر فلکیات کی بات بھی مذکور ہوتی تو اس دور کا ایک عام ذہن کس طرح سے اسے سمجھتا۔ اس زمانے تک انسان خلا میں نہیں گیا تھا۔ کوئی مصنوعی سیارہ تو دور کی بات، ایسی دور بین بھی نہیں تھی، جو نظامِ شمسی سے باہر دیکھ سکتی۔ اس کے باوجود آخری زمانے والوں کیلئے جو آیات نازل ہوئیں، انہیں پڑھیں تو دماغ بھک سے اڑ جاتا ہے۔

اس کے باوجود لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ اس لیے کہ وہ ماضی کی محرومیوں کی وجہ سے خدا سے ناراض ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسی مادرپدر آزادی۔مسئلہ یہ ہے کہ مولوی اور مذہبی لوگ اکثریت میں ہیں ۔جب وہ کچھ نہیں کر سکتے تو مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں ۔سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم موجود ہے ۔ تو کرتے رہیں، اپنی مرضی۔ پانچ ارب مخلوقات اپنی جبلتوں کے بل پر زندگی گزار چکی ہیں، آپ بھی گزار لیں۔زبردستی اس نے عبادت کرانا ہوتی تو آپ کا سافٹ وئیر ہی عبادت کرنے والا بناتا۔

آپ کو آزادی ہے۔ آپ مذاق اڑا لیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی قوت کم ہوتی جا رہی ہے۔ بال سفید ہو رہے ہیں ۔ آپ کو لازماً اس سوال پہ غور کرنا چاہیے کہ کائنات اور زندگی اپنے آپ بنی ہے تو انسان دوسری پانچ ارب مخلوقات کے برعکس ذہین کیوں ہے ۔ لباس کیوں پہن رہا ہے ، شادی اور طلاق کے اصول کیوں لکھ رہا ہے ، ٹریفک سگنل اور خلا میں جانے والے میزائل کیوں بنا رہا ہے ۔ وہ کتابیں کیوں لکھ رہا ہے ۔زبان کیوں بول رہا ہے۔

خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت انسانی عقل ہے ۔مگر دل و دماغ اگر اندھے کر دیے جائیں تو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔