سادھو کی باتیں

May 27, 2024

تحقیق سے ثابت شدہ امر یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر ایسے ڈرائیورز حادثات کا شکار ہوتے ہیں جن پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کہیں وہ کسی انجانے حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایسے افراد جو اس وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر ایسا ویسا کچھ کھایا پیا تو وہ بیمار ہوسکتے ہیں۔ تحقیق یہ کہتی ہے کہ ایسے افراد جو بیماریوں بارے زیادہ سوچتے ہیں ان میں بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ قدرت کا یہ قانون ہےکہ خوف دماغ کو ایسے سگنل دیتا ہے جو حقیقت میں کسی حادثے کا سبب بن جاتا ہے۔ اللّٰہ نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ہماری توجہ جس طرف زیادہ ہوتی ہے۔ ہماری ذہنی طاقت جس بات یا خیال پر زیادہ استعمال ہوتی ہے وہ خیالات جنہیں ہم بسا اوقات اچھے بُرے خوابوں سے جوڑ کر حقیقت بنا لیتے ہیں ہمارے عمل سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے پہلے تولو پھر بولو۔ اگر ہم نے دھیان سے سوچ لیا تو گیان سے بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ کے حقیقی ذہنی رجحانات گفتگو سے ظاہر ہونے لگیں گے ۔ کسی سیانے نے ایک معروف بھارتی اداکارہ کو کیریئر کے آغاز میں یہ مشورہ دیا، سوال جتنا بھی بدتمیزی سے پوچھا جائے اس کا تمیز سے جواب دینا کیونکہ تاریخ میں اس سوال کا کہیں ذکر نہیں ہوگا، جواب تاریخ کا حصہ ضرور بن جائے گا۔ مذکورہ اداکارہ نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا۔ ان کا کہنا تھا جو کچھ بھی ہو جائے مجھے برداشت ، صبرو تحمل سے تمیز کے دائرے میں رہ کر اپنی بات ہر صورت کہنی ہے چاہے سامنے والے کو سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی نہ کوئی میری کہی بات سمجھ جائے گا اور وہ بات تاریخ کا حصہ ہوگی۔ کامیاب لوگوں کی کہی باتیں اکثر لوگوں کو وقت پر سمجھ نہیں آتیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ملکی حالات کچھ ایسے ہی چل رہے ہیں۔ میڈیا کی طاقت سے خوف زدہ لوگ ہتک عزت، پیکا ایکٹ کے نام پر سخت ترین سزاؤں پر مبنی قوانین لاگو کرکے دراصل اپنے اندر کا خوف ظاہر کررہے ہیں۔ موجودہ صورت حال کسی بھی صورت آئیڈیل نہیں۔ کالے قوانین کی جتنی بھی مذمت و مزاحمت کی جائے کم ہے۔ حالات کی سنگینی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب تو خواجہ سرا بھی ہم پر بھاری پڑ رہے ہیں ۔ کالے قوانین کے بعد ہمارے پاس تالیوں اور مداح سرائی کے سوا کام کیا رہ جائے گا۔ حکمرانوں، پارلیمنٹ میں بیٹھے تمام سیاست دانوں کے کھلے تضادات تو دیکھئے ایک طرف میڈیا کو پیکا ایکٹ کا ٹیکہ لگایا جارہا ہے، ہتک عزت کے نام پر کڑی سزاؤں ، جرمانوں کے قوانین سے ہاتھ پاؤں باندھ کر تیز رفتار خصوصی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دینے کا اہتمام کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اراکین پارلیمنٹ توہین عدالت قانون سے نجات کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے پَر کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سیاست دان کھلے عام میڈیا کے سامنے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے نام لے لے کر الزام تراشیاں کریں، الیکٹرانک، پرنٹ وسوشل میڈیا ان کے بیانات کو شہہ سرخیوں، بریکنگ نیوز کے طور پرشائع او ر نشر کرے گا اور اعلیٰ عدلیہ سے ان بیانات کے پس منظر میں میڈیا مالکان و کارکنان کو طلبی کے نوٹس جاری ہوں گے تو ایسے حالات میں پیکا اور ہتک عزت قوانین کس پر لاگو ہوں گے؟ سزائیں سیاست دانوں کو ملیں گی یا میڈیا والوں کو ، آج ہی سوچ لیں۔ کل کسی کی بھی باری آسکتی ہے۔ ایک سادھو کا کہنا ہے کہ زندگی خوش گوار بنانے کے ایک سادہ سے عمل سے بہت سارے ذہنی و جسمانی مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ سوچ میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔یعنی آپ بہت زیادہ پریشان ، ذہنی تناؤ کا شکار ، جسمانی تپش محسوس کرتے ہوں یا بہت زیادہ غصہ آتا ہو تو رات سونے سے پہلے تازہ پانی سے نہا لیں تمام ذہنی ودماغی پریشانیاں آپ سے دور بھاگنے لگیں گی۔ اس عمل سے صرف جسمانی صفائی ہی نہیں ہوگی بلکہ ذہنی غلاظتیں بھی پانی کے ساتھ بہہ جائیں گی۔ زندگی گل و گلزار بن جائے گی۔دنیا مسائلستان ہے کوئی یہاں سکھی نہیں، ہماری زندگی، موت، خوشی و غمی، اچھے بُرے ازدواجی تعلقات، طلاقیں ہر کسی کو اس بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ فرسٹریشن، ڈپریشن، سٹریس یہاں تک کہ کچھ لوگ خودکشی جیسے حرام عمل پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین اسلام مایوسی کو گناہ قرار دیتا ہے۔ انسان دنیا میں خالی ہاتھ آیا، خالی ہاتھ ہی جائے گا۔ جب اللہ نے ہمیں لائف انشورنس دے رکھی ہے تو پھرفکر کس بات کی؟ نصیبوں کی لکیریں پیٹنا چھوڑ دیں، احساس کمتری سے باہر نکل آئیں، اس بات کو بھول جائیں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے گا۔ آپ خود اپنے باڈی گارڈ ہیں۔ا پنی مثبت صلاحیتیں بروئے کار لائیں، ایک دوسرے کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی روش ترک کرکے دل میں جو آتا ہے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کر گزریں۔ بکھری سوچیں، مایوسی کے شکار لوگ، ایک دوسرے سے خوف زدہ معاشرے میں پرورش پانے والے دماغ، انتشار، افراتفری، تخریب کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ خوش گوار زندگی کے یہ اُصول یاد رکھیں۔ صحیح ہیں تو وقت ضائع کئے بغیر ثابت قدم رہیں۔ غلط ہیں تو صحیح ثابت کرنے پر اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کریں۔ کسی سے مشاورت کی ضرورت ہے تو بلاجھجک کریں، سوچ میں مثبت تبدیلیاں لائیں، رات سونے سے پہلے دماغ سے تمام غلاظتیں نکال باہر پھینکیں، گہری نیند میں اچھے خواب دیکھیں۔ نئی صبح کا مثبت سوچ سے آغاز کریں، خودساختہ خوف سے باہر نکل کر دیکھیں ممکن ہے کوئی قابل عمل حل نکل آئے۔