ایک ادیب ایک کہانی: ننھے کا غبارہ

June 09, 2024

فیض احمد فیض

ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد

اردو دنیا کے مقبول شاعر فیض احمد فیض نےبچوں کے لیے بھی کچھ نظمیں اور کہانیاں تحریر کیں۔ فیض احمد فیض 13 فروری 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سے ایف اے تک اسی شہر سے تعلیم حاصل کی۔گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا۔

انگریزی اور عربی زبانوں میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔1934-35 ایم اے او کالج امر تسر میں انگریزی کے لیکچرار ہوگئے، یہی وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ فیض صاحب بھی اس سے وابستہ ہوگئے بعد ازاں اس تحریک کے سب سے بڑے شاعرکی حیثیت سے جانے گئے۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے۔

انہوں نےانگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کی ادارت بھی کی۔ ان کے کئی شعری مجموعے، کلیات اور نثر کی بھی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ فیض احمد فیض نے مختلف زبانوں میں بچوں کے لیے بھی لکھا، ان کی تحریروں کا مجموعہ شیما مجید نے ’بچوں کے فیض ‘کے نام سے مرتب کیا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ 1962 میں’لینن امن انعام‘ اور1989 میں حکومتِ پاکستان نے انہیں’ نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔ 20 نومبر 1984 میں فیض احمد فیض کا انتقال ہوا۔ پیارے بچو! اس ہفتے ان کی ایک تحریر کردہ کہانی’ ننھے کا غبارہ‘ پڑھیں، یہ ڈرامائی انداز میں لکھی گئی ہے۔

ننھا:’’سنا آج برتھ ڈے ہے ہماری، جی ہاں۔ آج تو بہت مزہ آئے گا برتھ ڈے ہے جی برتھ ڈے۔‘‘

’’ننھے، ادھر آنا بھئی ذرا جلدی سے۔‘‘

ننھا: ابھی آیا۔

سلیمہ:’’دیکھو ننھے، میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں، سالگرہ کا تحفہ ،سارے شہر میں ڈھونڈا جب ایسا بڑھیا غبارہ ملا۔‘‘

سلیمہ: ہاں ہاں غبارہ۔

ننھا: افوہ کتنا پیارا ہے، واہ جی واہ۔

سلیمہ:’’ذرا دھیان رکھنا اس کا یہ کچھ ایسا ویسا غبارہ نہیں ہے۔ یہ تو جادو کا غبارہ ہے۔‘‘

ننھا:’’ہیں! جادو کا پھر یہ اُڑ تو نہیں جائے گا۔‘‘

سلیمہ:’’نہیں تم دیکھ بھال کرو گے تو نہیں جائے گا۔‘‘

امی:’’ننھے، ننھے، آج اسکول نہیں جاؤ گے کیا، کتنی دیر ہوگئی ہے۔‘‘

سلیمہ:’’چلو بھئی امی بلا رہی ہیں، اب یاد رکھنا جو میں نے کہا۔ جادو ہے اس میں۔‘‘

امی:’’چلو ننھےجلدی جاؤ اسکول، سالگرہ ہے تو کیا ہوا، ارےیہ کیسا پیارا غبارہ ہے، کہاں سے ملا یہ؟‘‘

ننھا:’’کسی نے دیا ہے۔‘‘

امی: تو پھر جلدی کرو، یہ رہا تمہارا بستہ، یہ حاضر ہے ٹوپی۔ چلو چلو اور یہ غبارہ یہیں رہنے دو،ماسٹر صاحب خفا ہوں گے۔

ننھا:’’جی اچھا امی۔‘‘

’’ارے غبارے میرے پیارے غبارے، دیکھو تم اڑ مت جانا کہیں، میرے آنے تک یہیں رہنا اور پھر ہم خوب کھیلیں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

ننھا اسکول چلا جا رہا ہے بغل میں کتابیں ہاتھ میں کھانا سر پر ٹوپی، لیکن اسکول تو دور بہت ہے۔ ننھی ننھی ٹانگیں تھک جاتی ہیں، چلو ذرا دم لے لےلیں وہ ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے۔ اچانک غبارہ آتا ہے

ننھا:’’اوہو، ارے تم کیسے آگئے، میں نے تو کہا تھا گھر پر رہنا۔بھئی گھر جاؤ مہربانی کرکے۔

غبارہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہےلیکن وہ اڑ جاتا ہے۔

سنتری:اجی یہ کیا ہو رہا ہے، چھوٹے صاحب؟ ادھر ٹریفک رواں ہے، ادھر آپ سڑک پر کھیل رہے ہو،لال بتی نہیں دیکھی، لال بتی جلے تو ایک دم کھڑا رہنا چاہیے۔‘‘

ننھا:وہ تو ٹھیک ہے سنتری صاحب پر میں کیا کروں غبارہ ضد کر رہا ہے۔

سنتری: کون۔

ننھا: اجی کوئی نہیں کوئی نہیں۔

سنتری: تو جلدی سڑک کر اس کرو ۔

ننھا:’’دیکھئے میرے اچھے غبارے، گھر چلے جایئے نا، ورنہ کوئی لڑکا چرالے گا، یا پن چبھوکر مار ڈالے گا۔‘‘

غبارہ واپس جاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ننھا جماعت میں آتا ہے۔

اسکول ماسٹر:’’پھر دیر میں آئے، آج کیا کر رہے تھے؟

ننھا:’’جی ٹریفک بہت تھا،سڑک پار کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ایک جگہ لال بتی جلی تو میں گزرنے لگا تو پولیس والے نے روک دیا۔

ماسٹر: تو بیٹھ جاؤ اور ایک سو ایک بار یہ فقرہ لکھو ”اسکول ہمیشہ وقت پر جانا چاہئے اور سڑک پر ہمیشہ لال بتی کے لئے رکنا چاہئے۔“

ننھا:ابھی یہ لکھ ہی رہا ہوتاہے کہ اسکول ہمیشہ وقت پر کہ اچانک غبارہ آجاتا ہے۔

ننھا: او، ارے چلو جاؤ غبارے، گھر جاؤ۔

ماسٹر : اچھا تو یہ بات ہے، یہ کس کا غبارہ ہے؟

ننھا: ’’جی جی میرا ہے۔‘‘

ماسٹر:’’ تمہیں خبر ہے کہ یہاں جو کوئی غبارہ لائے گا اس کے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘

ننھا:’’جی جی نہیں! جی نہیں جی۔‘‘

ماسٹر:’’یہ ہوگا۔ ‘‘یہ کہہ کرپن چبھو دیتا ہے، غبارہ پھٹ جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ننھے کا بالکل گھر جانے کو جی نہیں چاہا، اس کا دل اداس تھا، اسے اپنے پیارے غبارے کے پھٹ جانے کا اتنا دکھ تھا کہ وہ ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر رونے لگا اور اتنا رویا اتنا رویا کہ بس لیکن آپ کو معلوم ہے کہ بچے روتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ضرور ان کی سنتا ہے اور آنسو پونچھنے آجاتا ہے، چنانچہ اب بھی ایسے ہوا۔

(غباروں کی ملکہ آتی ہے)

ملکہ: ’’ننھے، ننھے‘‘۔

ننھا: ایں، آپ کون ہیں؟

ملکہ:بھئی بوجھ لونا، میں غباروں کی ملکہ ہوں، میں تمہارے لئے تمہارے مرے ہوئے غبارے کا پیغام لائی ہوں، لیکن وہ شریر تھا نہ بہت، بات نہیں مانتا تھا۔

ننھا: ’’ہاں ہاں کچھ کچھ۔‘‘

ملکہ:’’ہم نے تمہارے رونے کی آواز سنی تو سوچا کہ بھئی بچارے کی سالگرہ ہے، اس کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے۔‘‘

ننھا: مجھے کچھ نہیں چاہئے، بس مجھے غبارہ دکھا دیجئے۔

ملکہ:اچھا یہ تو کچھ ایسی مشکل بات نہیں، تم آنکھیں بند کرو اور دس تک گنو۔

ننھا:ایک دن تین چار پانچ چھ سات آٹھ نو دس۔

آواز: پھر جو ننھے نے آنکھ کھولی تو کیا دیکھا کہ سب جنگل غباروں سے بھرا ہوا ہے۔

ملکہ:لو بھئی اب ان میں سے جو چاہو پسند کرلو۔ دیکھو لال ہیں ڈھلتے سورج کی طرح چمکیلے، یہ پیلے ہیں جیسے سرسوں کے پھول اور یہ نیلے ہیں جیسے سمندر کا پانی اور ان میں سبز بھی ہیں جیسے دھان کے کھیت، بولو۔ کون سا چاہئے۔ جلدی بولو۔

ننھا: مجھے تو یہ سب ہی اچھے لگ رہے ہیں۔ لیکن مجھے ویسا چاہئے جیسا میرا اپنا غبارہ تھا، نہیں یہ نہیں ،یہ نہیں، یہ بھی نہیں وہ، ہاں وہ ٹھیک ہے، وہ دے دیجئے۔

ملکہ: اچھا وہ لے لو، اور دیکھو غبارے، تم ننھے کی بات ماننا، جو یہ کہے وہی کرنا سمجھے، ورنہ کوئی تمہیں بھی مار ڈالے گا، سمجھے۔

ننھا اور غبارہ ناچتے ہیں۔