مودی چائے والا

June 07, 2024

نریندر مودی کی شہرت گجرات کے فسادات سے ہوئی۔ مگر اس کے متعلق بہت سی باتیں یونہی نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ خبروں میں رہنے کا طریقہ اسے آتا ہے۔ وہ شہرت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایک چائے والا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو مودی نے بھی کہہ دیا کہ اس کے والد کا ریلوے اسٹیشن پر چائے کا کھوکھا تھا اور وہ اپنے والد کے ساتھ چائے کے اس کھوکھے پر کام کیا کرتا تھا- مودی کی بھی چائے والی پوسٹیں وائرل ہونے لگیں۔ اس کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم چائے کے کھوکوں کا وزٹ فرمانے لگے۔ ان کے پرانے جاننے والوں نے بہت کہا کہ اس کا باپ اچھا بھلا کھاتا پیتا آدمی تھا۔ نہ وہ چائے کے کھوکھے والا تھا اور نہ اس نے کبھی چائے کے کھوکھے پر کام کیا مگر چائے کے کھوکھوں والوں نے یہ بات کب ماننا تھی وہ تو مودی چائے والے کی شکل میں خود کو وزیر اعظم سمجھنے لگے تھے۔

مودی سکول میں ایک لائق لڑکا تھا۔ بڑا اچھا اداکار تھا مگر ہیرو کے سوا کوئی اور رول نہیں ادا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یا آدمی ہیرو ہوتا ہے یا زیرو۔ اور زیرو ہونے سے اسے نفرت تھی۔ زیرو یعنی صفر کے بارے میں ایک بڑے آدمی قول ہے کہ اگر ایک کے ساتھ مل کر صفر دس نہ ہو جاتا تو میں اسے ریاضی سے نکال دیتا۔

جوانی میں برہمچاری بن گئے۔ عمر بھر شادی نہ کرنے کا وچن دیا۔ معروف ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اسے بڑی اہمیت دی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی بیوی سامنے آ گئی۔ مودی کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے پاس جو فن ہے وہ فن اداکاری ہے۔ اس نے بالی ووڈ میں جانے کی بجائے حقیقی زندگی میں اداکاری شروع کر دی۔ اپنی زندگی کا پہلا ڈرامہ۔ ’’مندر کے مگر مچھ‘‘ بڑی محنت سےتیار کیا۔ یہ ڈرامہ خاصا خطرناک تھا مگر رسک تو لینا پڑتا ہے لیکن اس نے احتیاط کا کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیا تھا۔ یہ ایک تالاب تھا جس کے درمیان میں مندر بنا ہوا تھا۔ تالاب میں مگرمچھ تھے۔ ان کے خوف کی وجہ سے بڑے طویل عرصہ سے کوئی مندر میں نہیں گیا۔ اس نے ہفتہ بھر مگرمچھوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا کہ کس وقت حرکت میں ہوتے ہیں اور کس وقت آرام کرتے ہیں۔ اور پھر ان کے آرام کے وقت جا کر مندر پر جھنڈا لہرا آیا اس کے ساتھ اپنی پبلسٹی کا بھی پورا بندو بست کیا۔ انتخابی ڈرامے بھی وہ پوری احتیاط اور جانچ پڑتال کے بعد کرتا رہا۔ دو ڈرامے تو اس نے فوج کی مدد سے تیار کیے۔ وہی، پلوامہ اور ابھی نندن والے ڈرامے۔

خیر، اس مرتبہ مودی کو پورا یقین تھا کہ وہ چار سو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا مگر کچھ حساب کتاب ٹھیک نہیں بیٹھا۔ سو وزیر اعظم بننے کیلئے اب اسے ان جماعتوں کے سہارے کی ضرورت پڑ گئی ہے جو اس کی مذہبی جنونیت کے سخت خلاف ہیں۔ نریندر مودی نے اقتدار زندگی بنا لیا ہے اور آدمی زندگی سے زندہ باہر نہیں آ سکتا۔ اس وقت بیچارہ جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ بڑا بھگوان بنا پھرتا تھا۔ کہتا تھا مجھے خاص طور پر بھیجا گیا ہے۔ منتروں کے جلو میں چلتا تھا۔ گائو ماتا اس کے آگے آگے چلا کرتی تھی۔ دیوی دیوتائوں کی مورتیاں اس کی انتخابی مہم میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مندروں میں کیمرہ لگوا کر مراقبے کرتا تھا۔ ریکارڈنگ کا ایسا انتظام ہوتا تھا جیسےکسی فلم کی شوٹنگ کی جا رہی ہو۔ اس نے انتخابی مہم میں ایسے ایسےڈرامے کیے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ کہیں بیٹھا خاکروبوں کے پائوں دھو رہا ہوتا تھا تو کہیں پنڈتوں کے جوتے پالش کر رہا ہوتا تھا مگر ا س مرتبہ اسکی مذہبی ڈرامہ بازی ہار گئی۔ دو وقت کی روٹی نے مذہب کی طرف دیکھنے سے انکار کر دیا۔ بے شک ایودھیا اور اتر پردیش مودی کی مقبولیت کے دعوے کچھ عرصہ پہلے تک کھوکھلے نہیں لگتے تھے مگر سوشل میڈیا کے ایک ہیرو دھرو راٹھی نے بیچارے مودی کو ایسا برہنہ کیا کہ سچ مچ ہیرو سے زیرو بنا دیا۔ وہی زیرو جس سے مودی کو نفرت ہے۔ کوئی مذہبی کارروائی اسے سہارا نہ دے سکی۔ نہ بابری مسجد کی جگہ بنایا جانے والا مندر کچھ کر سکا اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کی داستانیں اسے بچا سکیں۔ مودی کا ہندوستان مودی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ا۔ بھارت میں مودی کی انتہا پسندی ہار گئی۔ کہتے ہیں اس وقت اس کی حالت کسی زخمی درندے جیسی ہے۔ وہ پھر کسی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرانا چاہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی شکست کے پیچھے بھارت کی مسلم آبادی کا بہت کردار ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ جب آدمی کا نقصان ہوتا ہے تو پہلا شک اسی پر پڑتا ہے جس کا وہ خود نقصان کر چکا ہوتا ہے۔ سو مودی حق بجانب ہے یہ سوچنے میں کہ مسلمانوں نے اس کے خواب خرابے میں بدلے ہیں۔

مودی کا وہ موقف بھی رفتہ رفتہ جھوٹ ثابت ہوا کہ انڈیا ہزاروں سال پہلے ایک بہت ترقی یافتہ ملک تھا۔ اس نے کاغذ پر بنی ہوائی جہاز کی ایک تصویر دکھائی تھی اور اس کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں سینکڑوں سال پہلے ہوائی جہاز اڑا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی ایک بار پھر ہندوستان کا وزیر اعظم بن جائے گا مگر یہ بھارتی تاریخ کا سب سے کمزور وزیر اعظم ہو گا۔ اپنی سابقہ پالیسیاں برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ یہ خطرہ ضرور ہے کہ وہ اپنی پوزیشن عوام میں بحال کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیا اور خطرناک کھیل نہ شروع کر دے جو پاک بھارت جنگ پر منتج ہو لیکن ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ مودی کے ڈرامے کا آخری سین چل رہا ہے۔ یہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتا ہے۔