سنسنی خیزی؟

June 09, 2024

کسی نے کہا کہ میں زبردست ہوں ، میرے کان میرے کنٹرول میں ہیں ،میں آپ کی آواز نہیں سن سکتا ۔ کیونکہ میں سننا نہیں چاہتا۔(اکثر نئے نئے بہرے یہی سوچتے ہیں) ممکن ہے میں اس معاملہ میں غلط ہوں مگر میں کبھی غلط نہیں ہواکرتا ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دونوں غلط ہوں مگرمجھے اپنی غلطی تسلیم کرنے کی عادت نہیں ۔میں بحث نہیں کر رہا ہوں، صرف یہ بتا رہا ہوں کہ مجھے صحیح تسلیم کرنا تمہاری مجبوری ہے کہ میں بلیک بیلٹ ہوں ۔(یہی ہمارا مجموعی رویہ ہے )یہ میرا خیال ہے کہ حملہ آور نے یہی کہا ہوگا یا یہی سوچا ہوگا۔بے شک شریف لوگ مار پیٹ سے ڈرتے ہیں ۔انہیں الٹا لٹکنے سے ڈر لگتا ہے۔وہ کسی کےسامنے برہنہ نہیں ہونا چاہتے ۔بجلی کی تاریں پلاسٹک میں لپٹی ہوئی اچھی لگتی ہیں ۔سچ یہی ہے کہ قربانیاں دینا نارمل آدمی کا کام نہیں ہوتا۔یقیناً یہ حملہ آور بھی کوئی نارمل نہیں تھا (یہ صرف میرا خیال ہے) ۔

خیر اب تو صحافت کا یہی معمول بن چکا ہے کہ سر خی نکالتے ہوئے توجہ سنسنی خیزی پر دی جاتی ہےبلکہ شاید ہمیشہ سے خبریہی ہے کہ کتے کو آدمی نے کاٹ لیا ہےاورآدمی کے کاٹے کی ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی ۔ جیسے میں نے کالم کا سرنامہ بنایا ہے ۔’’وزیر اعظم پر حملہ ‘‘یہ عنوان غلط نہیں ،وزیر اعظم پر حملہ ہوا ہے مگر حملہ وزیر اعظم شہباز شریف پر نہیں ہوا۔پچھلے دنوں ایک سرخی میری نظر سےگزری کہ ’’وزیراعظم تبدیل ‘‘،میں نے فوراً خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ آزادکشمیر کا وزیر اعظم بدل گیا ہے ۔یہ جو سرخی میں ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ‘‘کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔کچھ لوگ اسے بہت بڑی بات سمجھتے ہیں انکے خیال میں یہ اندھیرے میں چراغ جلانے کی طرح ہے مگر میرے نزدیک یہ پھلجھڑی چھوڑنے کا عمل ہے۔یعنی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ڈھنگ ہے ۔ آگ لگانے کا وصف ہے اور کچھ لوگ آگ لگانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں ۔سراپا ماچس ہوتے ہیں ۔پتہ نہیں میں آگ لگا سکا ہوں یا نہیں ۔چلو یہ بتادوں کہ کس وزیر اعظم پر حملہ ہوا ہے ۔یہ بیچاری ڈنمارک کی خاتون وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن تھیں ۔وہ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی ایک چھوٹی سی گلی میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور ان پر حملہ آور ہو گیا،انہوں نے گرتے گرتے خود کو سنبھالا مگر دوچار مکے پھربھی کھانے پڑے۔دیکھنے والی دو خواتین میری ایڈریان اور اینا ریون نے مقامی اخبار کوبتایا کہ ایک شخص مخالف سمت سے آیا اور اس نے ان کے کندھے پر زور سے دھکا مارا جس کی وجہ سے وہ ایک طرف کو گر گئیں۔لیکن ان خواتین کے بیان کا اگلا حصہ اور دلچسپ ہے کہ اس کے بعد وہ دونوں وہیں ایک کیفے میں بیٹھ کر کافی پینے لگیں ۔یعنی اس سے زیادہ انہوں نے دیکھنے یاسمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔کیا عوام کی بے نیازی ہے ۔ہمارے یہاں پہلی بات تویہ ہے کہ گلی کے نکڑ پر کوئی وزیر اعظم کھڑا ہی نہیں ہوسکتا۔کھڑا ہوجائے تو ارد گرد کوئی کیفے کھلا نہیں رہ سکتا۔اور اگرکھلا رہنے بھی دیاجائے تو اس میں لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اگر یہ اجازت بھی دے دی جائے تو لوگ کیفے میں نہیں بیٹھ پاتے وزیر اعظم کا مقناطیسی عہدہ انہیں اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ہماری طرف وزیر اعظم کے اردگرد ان کے گارڈ زہوتے ہیں جنہیں حملے کی صورت میں وزیر اعظم سے پہلا مرنا پڑتاہے اور بچ جائیں تو ڈوب مرنا پڑتا ہے ۔وہاں کچھ ایسا نہیں ۔ڈنمارک کے وزیر میگنس ہیونیک نے اس حملے پرتبصرہ کرتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا ۔’’ہمارے خوبصورت، محفوظ اور آزاد ملک میں ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ان اقدار کا پاس رکھیں جن پر ہمارا ملک بنایا گیا ہے‘‘۔ موصوف نے سب سے پہلے اپنے ملک کی خوبصورتی کا ذکر کیایعنی حملے کو بدصورتی قرار دیا۔پھر محفوظ اور آزاد ہونے کی بات کی ۔یعنی یہ حملہ ملک کو صرف غیر محفوظ ہی نہیں محکوم بھی ثابت کررہا ہے ۔یہی وہ محکومی ہے جس کے متعلق پاکستان میں حقیقی آزادی کا نعرہ گونج رہا ہے ۔یہ ڈنمارک والے بھی کیا لوگ ہیں یار ۔ابھی تک ڈنمارک کی سرکارنے صرف اتنی خبر جاری کی ہے کہ دارالحکومت کے وسط میں کلٹرویٹ پبلک اسکوائر میں میٹ فریڈرکسن کو ایک شخص نے مارا پیٹا۔اس سلسلے میں پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ خبر ختم ہوئی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈنمارک کے سوشل میڈیا پر بھی اس سے زیادہ کوئی اطلاعات موجود نہیں ۔کوئی سنسنی خیز خبر،اندر کی معلومات ،وہاں کاکوئی صحافی ابھی تک نکال کر نہیں لایا۔اس واقعہ کو چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں وزیر اعظم کے دفتر نے بھی صرف اتنا کہا ہے کہ وزیر اعظم اس واقعہ پر حیران ہیں ۔دنیابھر کے میڈیا کے پاس اور کوئی معلومات موجود نہیں ۔ہمارے یہاں اگر ایسا ہوا ہوتا تو اس وقت تک پتہ نہیں کتنی اسٹوریاں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہوتیں ۔ کتنے چشم دید گواہ لطف لےلے کراپنی اپنی داستانیں سنا چکے ہوتے ۔الزام بھی دھرا جا چکا ہوتا کہ یہ کام فلاں پارٹی نے کرایا ہے بلکہ اس پارٹی کے سربراہ پر ایک اور مقدمہ بھی درج ہو چکا ہوتا۔