ڈالر کی قدر اور شیخ صاحب

March 16, 2014

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کی ہر سابقہ حکومت میں وزارت کے مزے چکھنے اور بعد میں ان کی معزولی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے شیخ رشید صاحب نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو چیلنج دیا تھا اگر ڈالر واپس 100روپے کا ہو گیا تو وہ سیاست سے دستبردار اور اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ سے مستعفی ہو جائیں گے جو انہوں نے عمران خان کے کندھوں پر بیٹھ کر حاصل کی ہے۔ مگر آج واقعی ڈالر 100روپے سے بھی نیچے آچکا ہے ۔پہلی مرتبہ لوگ ڈالر خریدنے کے بجائے بیچنے کی فکر میں ہیں مگر شیخ صاحب نے سیاستدانوں کے روایتی انداز میں فوراً قلابازی کھاکر الٹا وزیر خزانہ کو دھمکانا شروع کر دیا ہے کہ مجھے اور عوام کو بتایا جائے ڈالر کیوں 100روپے کی سطح پر آیا ہے ورنہ میں 24گھنٹوں میں راز فاش کر کے بتائوں گا کہ اس کے پیچھے کیا ڈرامہ ہے۔ البتہ صنعت کاروں اور تاجروں نے ڈالر میں کمی کو مسلم لیگ ن کی سیاسی کامیابی سے تعبیر کیا اور اس پر سکون کا سانس لیا کہ یہ بات مہنگائی کم کرنے کی پہلی کڑی ثابت ہوگی۔ آج 72گھنٹے گزر چکے ہیں شیخ صاحب حقائق سے نظریں چراکر ادھر اُدھر کے بیانات دینے میں مصروف ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا نئی منطق لاتے ہیں۔اب شیخ صاحب سے پوچھا جائے کب ڈالر اوپر جائے گا۔ میں کسی بھی سیاسی جماعت کا نہ حامی ہوں اور نہ مخالف اگر کوئی حکومت اچھا کام کرے گی تو اس کو سراہنا چاہئے اور جو حکومت غلط کام کرے اس کی نشاندہی اگر نہ کی جائے تو پھر وہ منہ زور ہو جاتی ہے۔ ویسے ماضی میں خود شیخ رشید صاحب نے جب پرویز مشرف کی حکومت میں شرکت کی تھی تو میڈیا پر کھل کر کہا تھا کہ اول مسلم لیگ ن ختم ہو گئی ہے میاں نواز شریف اب کبھی واپس نہیں آسکتے اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، تو دونوں ہی باتیں غلط ثابت ہو چکی ہیں مسلم لیگ (ن )بھی واپس اقتدار میں آچکی ہے اور میاں نواز شریف صاحب بھی وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔بے شک پاکستان پیپلز پارٹی نے 5سال میں کچھ نہیں کیا تھا عوام اس سے مایوس ہو کر دوبارہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے کر واپس اقتدار میں لے آئے۔ اس لئے اب مسلم لیگ (ن )کو لامحالہ قوم کو کچھ کر کے دکھانا پڑے گا اگر اس نے پی پی پی کی طرح کچھ نہ کیا تو اگلا قدم عوام تحریک انصاف کو ضرور آزمائیں گے۔ اس الیکشن میں عوام نے عمران خان کے بلّے کو ووٹ تو ڈالا تھا مگر راستے سے بلّا غائب کر دیا گیا ۔صرف خیبر پختونخوا میں زیادہ گڑبڑ نہیں ہو سکی تھی سو عمران خان کو صوبائی حکومت مل گئی۔ وہاں بھی مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے میاں نواز شریف کو ہر ممکن بہکایا ،پھسلایا مگر میاں صاحب ان کی باتوں میں نہیں آئے اور ان کو چند وزارتیں تھما کر ٹھنڈا کر دیا مگر مولانا صاحب کو جب بھی موقع ملا وہ ماضی کی طرح ہر حکومت میں اقتدار کے مزے مع مراعات لینے کے باوجود تنقید کا سلسلہ نہیں توڑتے اور امریکہ کی طرح ’’ڈو مور‘‘ ’’ڈو مور‘‘ کرتے رہیں گے یہ صورتحال ایک طرف رہی شیخ رشید کی پیشگوئیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اس وقت قوم کی نگاہیں طالبان مذاکرات کی طرف لگی ہوئی ہیں اگرچہ ابھی تک دونوں طرف سے گلے شکوے جاری ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے ایکشن بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی ۔ اس طرح کیسے جنگ بندی ہو سکتی ہے ۔آج بھی خودکش حملے جس میں عوام، فوجی اہلکار شہید ہو رہے ہیں اور دوسری طرف میاں صاحب مذاکرات کو عملی جامہ پہنانے تحریک انصاف کے سربراہ جو کل تک ان سے نالاں تھے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی کوششوں سے منانے میں کامیاب ہوگئے اور دونوں کی پہلی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جو یقیناً ایک مثبت قدم ہے اگر اسی ماحول میں کسی تیسری طاقت نے مداخلت نہیں کی تو ممکن ہے اس سے صلح صفائی اور آگے بڑھے گی ۔گرمیاں شروع ہونے والی ہیں پہاڑوں سے بھی برف پگھلنے کی امید ہے طالبان سے مستقل جنگ بندی دونوں فریقوں کیلئے بہتر ہے ۔بہت خون کی ندیاں دونوں طرف سے بہہ چکیں ۔
دونوں طرف مسلمانوں کا ہی خون بہا ہے کون شہید ،کون دہشت گرد، اس کو بھول کر صلح کا راستہ بہت ضروری ہو چکا ہے اس سے پاکستان میں امن و سکون اور معیشت میں بہتری آئے گی ۔قوم دہشت گردی ، قتل و خون سے عاجز آچکی ہے ملک کی بدنامی الگ ہو رہی ہے ابھی اس سے بھی نمٹے نہیں تھے کہ سندھ میں ایک طرف تھر کا قحط ماضی کی طرح سنگین ہوتا جا رہا ہے نقل مکانی اور بچوں کی بیماریاں، اموات پھر منہ کھولے تباہی پھیلا رہی ہیں۔ دعوے ہی دعوے اور دوروں پر دورے ہو رہے ہیں مگر مستحقین ابھی تک کھلے آسمان تلے اس کے منتظر ہیں کہ کہاں غلہ اور سامان جا رہا ہے کسی کو نہیں معلوم دوسری طرف پھر کراچی میں خون کی ہولی لیاری میں آپس کی چپلقش اور اقتدار کی جنگ چھڑی ہوئی ہے ایک گروپ دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے کیلئے اندھا دھند فائرنگ کر کے چلا جاتا ہے روز 20پچیس مظلوم عورتیں ، بچے ، بوڑھے اس کی زد میں آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ایک طرف رینجر ، پولیس آپریشن میں مصروف ہے تو بینک دن دہاڑے کراچی میں لٹ رہے ہیں بھتہ مافیا پھر دوبارہ زور پکڑ چکی ہے اغوا برائے تاوان جو کچھ دنوں کیلئے رکا ہوا تھا دوبارہ شروع ہو چکا ہے حکومت سندھ ناکام، اس کے وزراء لاچار ہیں۔ حالات پھر ابتر ہوتے جا رہے ہیں پہلے عدلیہ بیچ میں ازخود نوٹس لیتی رہتی تھی نئے چیف جسٹس صاحب کے آنے کے بعد یہ عمل بھی رک چکا ہے صدر پاکستان جن کا کل وقتی تعلق اسی شہر کراچی سے ہے ان کی طرف سے بھی کوئی مثبت پیشرفت نظر نہیں آتی۔ کراچی والے اب کس سے توقع کریں کہ یہاں کی صورتحال کو کون بہتر بنائے گا ۔