خواتین کیلئے مخصوص نشستیں کیوں؟

June 13, 2024

مخصوص نشستوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔اس حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن کیا سب سے اہم سوال یہ نہیں کہ خواتین کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص کرنے کی منطق اور توجیہ کیا ہے؟ 1973ء کے آئین میں یہ سوچ کر مخصوص مدت کیلئے خواتین کو دس نشستیں دی گئیں کہ طبقہ نسواں میںعملی سیاست میں حصہ لینے کے رجحان کو فروغ دیا جائے اور ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی ہو۔جنرل ضیاالحق کے دور میں خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کی تعداد 10سے بڑھا کر 20کر دی گئی۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد چونکہ آئین میں رکھی گئی اس گنجائش کی مدت ختم ہوگئی تو خواتین کا کوٹہ ختم ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف تشریف لائے تو انہیں لگا لبرل اِزم محض طبقہ اشرافیہ کی خواتین کو قومی اسمبلی میں آرائش و زیبائش کے نمونے کے طور پر لا بٹھانے کا نام ہے۔ نام نہاد روشن خیالی کو فروغ دینےکیلئے قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے 60نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ پہلے تو خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر بھی سینیٹ کے انتخابات کی طرح الیکشن ہوا کرتا تھا مگر اس بار جمہوریت کے چہرے پر سلیکشن کی کالک مل دی گئی۔ یہ اختیار سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو دے دیا گیا کہ محض پسند ناپسند کی بنیاد پر خواتین کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھجوا کر انہیں ارکان اسمبلی بنوا لیں۔ خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر ترجیحاتی فہرستیں کیسے تیار ہوتی ہیں، کسی روز یہ تفصیل بھی پیش کروں گا لیکن سردست اس بندر بانٹ کے حوالے سے محض آئینی و قانونی نوعیت کے سوالات آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔

قومی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب براہ راست عوام کرتے ہیں اسی لئے تو یہ منتخب عوامی نمائندے کہلاتے ہیں، مخصوص نشستوں پر ایوان میں آنے والے ارکان جن کا کوئی حلقہ نہیں، جو عوام کو جوابدہ نہیں، جنہیں کسی نے ووٹ نہیں دیا، ان پر کیسے عوامی نمائندے کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟ قومی اسمبلی کا ایوان 336ارکان پر مشتمل ہے، 266نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں جبکہ 70مخصوص نشستوں پر کوٹہ سسٹم کے تحت پرچی چلتی ہے۔ گویا جس ایوان میں 20فیصد غیر منتخب نمائندے براجمان ہوں، کیا اسے منتخب ایوان قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے ایوان میں کی گئی قانون سازی کی کوئی آئینی حیثیت ہے؟ آئین کا آرٹیکل 25کہتا ہے تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں، اور یکساں طور پر قانونی تحفظ کے حق دار ہیں۔جنس کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ جنس کی بنیاد پر امتیاز کی واضح ممانعت ہے تو پھر آرٹیکل 51جو بنیادی حقوق سے متصادم ہے اس کے تحت خواتین کیلئے اتنی بڑی تعداد میں نشستیں کیسے مخصوص کی جا سکتی ہیں؟ ممکن ہے آپ دستور پاکستان کی شق 25کی ذیلی شق 3پر انحصار کئے ہوئے ہوں کہ ریاست خواتین اور بچوں کے تحفظ کی خاطرخصوصی اہتمام کرسکتی ہے یا پھر دستور کی شق 34کا حوالہ دیں جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی شمولیت یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن محولا بالا شقوں کی غرض وغایت یہ ہے کہ خواتین کو آگے بڑھنے کیلئے یکساں مواقع اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اگر کوئی خاتون چنائو میں حصہ لینا چاہتی ہے تو اسکے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ کوئی یہ فتویٰ دیکر اس پر سیاست کے دروازے بند نہ کرسکے کہ عورت سربراہ حکومت نہیں ہوسکتی۔یہی سازگار ماحول فراہم کرنے کیلئے 1973ء کے آئین میں خصوصی مگر عارضی اہتمام کیا گیا تھا لیکن اسے مستقل بندوبست کی شکل دیکر جمہوریت کی شکل بگاڑ دی گئی ۔

یہ کالم لکھتے ہوئے خیال آیا کیا دیگر ممالک میں بھی خواتین کو نمائندگی دینے کی آڑ میں اس طرح کا کوٹہ سسٹم مقرر کیا گیا ہے؟تمام ممالک کا ذکر تو نہیں کیا جا سکتا، آسٹریلیا جہاں خواتین کی نمائندگی سب سے زیادہ ہے اس کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ وہاں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں خواتین ارکان پارلیمنٹ کا تناسب 38فیصد جب کہ سینیٹ میں خواتین کی نمائندگی 57فیصد ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک خاتون بھی پرچی یا کوٹہ سسٹم کے تحت نہیں آئی بلکہ سب ووٹ لیکر ایوان میں آئی ہیں۔ بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے وہاں خواتین کیلئے یوں کوٹہ سسٹم متعارف نہیں کروایا گیا۔ ابھی گزشتہ برس ستمبر میں ’’شکتی ناری‘‘بل ضرور منظور ہوا ہے لیکن ہنود دہلی دور است والی کیفیت ہے۔یہ بل جو پہلی بار بھارتی پردھان منتری دیوے گوڑا کی سرکار نے متعارف کروایا، کئی بار پیش ہوا لیکن ارکان پارلیمنٹ کی مخالفت کے باعث رد ہوتا رہا۔ اب مودی جی نے اسے انتخابی مہم کے تناظر میں یوں منظور کروایا کہ عملدرآمد کیلئے کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ یہ قانون کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے ایک تہائی یعنی 33فیصد نشستوں کی ضمانت دی جائے گی۔ اس پر عملدرآمد کیلئے پہلے مردم شمار ی ہو گی، پھر نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور تب کہیں جا کر 2029ء میں معلوم ہوگا کہ ایک تہائی کوٹہ کیسے مل پاتا ہے۔ لیکن اس آئینی ترمیم میں واضح کردیا گیا ہے کہ ’’شکتی ناری‘‘ کا قانون صرف تین انتخابات کیلئے کار آمد ہوگا یعنی اس کی مدت 15برس ہو گی، اس کے بعد راج نیتی میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کو عام انتخابات میں حصہ لیکر ہی ایوان میں آنا ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تو خواتین کو یہ سہولت 1973ء کے آئین کے تحت پہلے ہی فراہم کی جا چکی ہے تو پھر دستور پاکستان کی شق 25کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر ’’پیرا شوٹرز‘‘ یعنی چھاتہ برداروں کو مسلط کرکے صنفی امتیاز کیوں برتا جا رہا ہے؟ عمران خان نے ایک بار جنرل پرویز مشرف کے دور میں خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کے خلاف لب کشائی کی تھی، اگر ان کے نام پر ووٹ لینے والے واقعی قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو قانون سازی کے ذریعے اس کوٹہ سسٹم کو ختم کروائیں ۔