تھر کا نوحہ

March 17, 2014

’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کے زیر عنوان پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا ’’نائن الیون کے بعد وطن عزیز میں بم دھماکوں میں ہزاروں شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ دوسری طرف یہی وہ دورانیہ ہے جس میں غربت کا عفریت پوری بربریت و سفاکیت سے کروڑوں پاکستانیوں کو زندہ درگور کرنے کا باعث بناہے، ایسا لگتا ہے کہ بم دھماکے کرنے والوں اور عوام کے معاشی قتل میں مصروف عناصر کا ماسٹر مائنڈ ایک ہی ہے‘‘۔ قرآن عظیم نے دونوں یعنی جسمانی و معاشی قاتلوں کو ستمگر و فسادی کہا ہے اور دونوں خداوند کریم کے نزدیک ناپسندیدہ مخلوق اور سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔ ہم نے اس امر کی جانب بھی توجہ دلائی تھی کہ پاکستان میں چھوٹے موٹے جرائم کرنے والوں کو تو سزائیں دے دی جاتی ہیں لیکن مذکورہ فسادیوں کے طاقتور ماسٹر مائنڈ کھلے عام دہشت روا رکھے ہوئے ہے لیکن کوئی انہیں کھلے الفاظ میں فسادی کہنے کی جرأت تک کر سکے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ دونوں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکمرانوں کے دائیں بائیں بیٹھے نظر آتے ہیں یعنی دوسرے معنوں میں یہ اسلام کے اس ’’قلعے‘‘ میں محفوظ ہیں۔ اب جب یہ محفوظ ہوں گے تو ظاہر ہے کہ عوام تو غیر محفوظ ہی ہوں گے کہ ان کی بقا کیلئے عوام ہی کا خون درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت یوں ناکام ہے کہ یہ عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ اور خواص کے لئے خاص بن کر رہ گئی ہے۔ تھر کا نوحہ ہر درد مند نے لکھا اور ہر اس انسان نے اس پر ماتم کیا جو سینے میں دل رکھتا ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے کہ جو اہلِ زر و اہل اختیار اس کے ذمہ دار ہیں وہ تو بہ تائب یا کم از کم اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے تاویلات کے انبار تلے اس عظیم انسانی المیے کو معمولی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب کا ارشادِ ہے کہ گزشتہ قحط کے مقابلے میں اس مرتبہ کم اموات ہوئیں!
یہ استدلال یوں مضحکہ خیز ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سرکار کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ انسانی جانوں، بالخصوص معصوم بچوں کی زندگی کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں بلکہ اس کی ذمہ داری محض یہ بنتی ہے کہ وہ اعداد و شمار پر نظر رکھے کہ پچھلی مرتبہ کتنے بچے قدرت کا دیا ہوا رزق زورآوروں کے ہاتھوں لُٹ جانے کے سبب چل بسے تھے اور اس مرتبہ کتنے بچے اپنی مائوں کے گود سونی کر کے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور خدانخواستہ آئندہ کتنے بہار دیکھے بغیر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ جائیں گے…!! کیا غریب اور ان کے بچے اس مملکت خداداد میں یونہی تڑپتے سسکتے مرتے رہیں گے اور سرمایہ دار، جاگیردار محلات پر محلات بناتے ہوئے جمہوریت کا پرچم اسی شانِ بےنیازی وطمطراق سے لہراتے رہیں گے!! بلاشبہ جمہوریت ہی بہترین سیاسی نظام ہے لیکن پاکستان میں جس طرح جمہوریت رسوا سرِ بازار ہے، اس کی بنیادی وجہ وہ سرمایہ دار، جاگیردار اور مذہبی اشرافیہ ہے جس نے اس نظام سے اس کی روح تک نکال دی ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد عالمی سامراج اور اس کے گماشتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل اور اشتراکیت کیخلاف آمریت ہی کو پاکستان میں ناگزیر جانا اور جنرل ایوب خان نے سامراجی مفادات کے لئے جو نظام ہائے مملکت ترتیب دیا، بعدازاں جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف نے اسی ترتیب کو برقرار رکھا بلکہ اس میں جدت یہ پیدا کی کہ سیاسی جماعتوں کو کمزور، کرپٹ اور تنظیمی طور پر اپنے دراندازوں کے ذریعے اس قدر غیر جمہوری بنادیا ہے کہ اب سیاسی رہنما اپنی جماعتی، شخص و گروہی مفاد اور حکومت بچانے کی فکر میں یوں سرگرداں رہتے ہیں کہ انہیں عوام کی فکر کی فرصت ہی نہیں ملتی!! ضیاء الحق کے بعد آنے والی سیاسی حکومتوں کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہر آنے والی حکومت کو صرف اپنی فکر دامن گیر رہی۔ یہ فکر کیسے پیدا کی جائے؟ یہ پیدا کرنے والوں کے لئے یوں بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہوا کہ سیاسی و مذہبی رہنما ازخود سستے دام ہمہ وقت دستیاب رہے۔
تھر کے سانحہ کو کسی کے بھی کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ غریبوں، بے بسوں اور کمزوروں کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں… پاکستان میں سرمایہ دار، جاگیردار، سول، فوجی اور مذہبی اشرافیہ کے باہم گٹھ جوڑ اور ایک دوسرے کے معاملات و مفادات کو نہ چھیڑنے کے غیر تحریری معاہدے کے تناظر میں ہر آنے والا دن عوام کے لئے موجب پریشانی ہی ہوگا۔ اہلِ زر ہیں کہ استحصال سے کمائی ہوئی دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہیں اور اس میں سے غریبوں پر خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ یہ عوام ہی کی دولت ہے۔ قران عظیم 30 ویں پارے میں سورہ الھمزۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’خرابی ہے اُس کے لئے جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا، کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کیساتھ رہیگا، ہرگز نہیں، یہ ضرور روندنے والی میں پھینکا جائیگا اور تونے کیا جانا، روندنے والی ہے کیا؟ اللہ کی آگ جو بھڑک رہی ہے، وہ جو دلوں پر چڑھ جائے گی، بے شک وہ ان پر بند کردی جائے گی، لمبے لمبے ستونوں میں‘‘ یعنی وہ لوگ جو دولت جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر گنتے رہتے ہیں کہ کہیں کم تو نہیں ہورہی، ایسے لوگوں کو آگ میں ڈال کر دروازے بند کردیئے جائیں گے، یہ آگ جسموں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی… اب ہمارے برگر اشرافیہ کیا اتنے سخت جان ہیں کہ وہ اتنی سخت وعید کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہورہے!! حرام کھاتے کھاتے یہ تو ریشم سے بھی زیادہ نرم و ملائم ہو گئے ہیں لیکن دراصل انہیں یقین ہی نہیں ہے کہ ایسا ہوگا!! بصورت دیگر وہ کب کے توبہ تائب ہوچکے ہوتے!! قرآن مجید میں یہی نکتہ سمجھانے کے لئے بارہا قیامت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ یقین پیدا ہوجانے کے بعد معاملات خودبخود سنورتے چلے جاتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ جنہیں مولائے کریم نے یہ فریضہ ادا کرنے کی خاطر علم سے نوازا، ان میں سے اکثر سیاست کے بازار میں چلے آئے۔ کاش ہمارے مذہبی رہنما حضرت ابوذر غفاریؓ کی سنت کے احیاء کے لئے کمر کس لیتے تو وسائل سے مالا مال وطن عزیز شاید تھر جیسے سانحات سے محفوظ رہ پاتا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ بلا امتیاز ہر اُس شخصیت کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے کے لئے پہنچ جاتے ،جو ان کی نظر میں اصراف کی راہ پر گامزن ہوتا، یہاں تک کہ آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے سامنے بھی یہی کہا.... اے معاویہ ،آپ اپنے قصر خضریٰ کی تعمیر پر جو رقم خرچ کررہے ہیں اگر یہ ذاتی ملکیت ہے تو اسراف ہے اور اگر بیت المال سے خرچ کررہے ہیں تو خیانت ہے‘‘۔ تھر کے بچوں سمیت ملک بھر کے بے بس عوام کی لاشوں پر بنے اختیار مندوں کے محلات کے حوالے سے کیا کوئی اس طرح سوال اٹھانے کی جرأت کر پائے گا؟؟