لوڈشیڈنگ کی دعا

June 23, 2024

یہ کوئی افواہ نہیں ہے یعنی صریحاً جھوٹ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کو حکومتِ وقت عذابِ الٰہی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا تیر بہدف نسخہ سولر انرجی کے پینل تیار کرنے والی فیکٹریاں ہیں مگر فیکٹریاں لگانے کیلئے ادھار نہیں مل رہا۔ جب کسی شہر کے متعلق سنتا ہوں کہ وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تو اپنی شومیِ قسمت پر دل بیٹھ جاتا ہے۔ جیسے ہی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے مرد کی آنکھ کھلتی ہے اور عورت کی زبان مگر حکومت ہے کہ گالیاں سن کر بھی بے مزا نہیں ہوتی۔ نماز جمعہ کے بعد مولوی صاحب نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے دعا کی اور فتوی جاری کیا کہ وہ شخص صریحاً جہنمی ہے جس نےنمازیوں کو تکلیف پہنچائی۔ ان دنوں دنیا میں ممالک کی غربت کو ناپنے کا پیمانہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بن چکا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے تین موسم ہوتے ہیں، سردیوں کی لوڈ شیڈنگ، گرمیوں کی لوڈ شیڈنگ اور حکومتی لوڈ شیڈنگ، یہ تینوں موسم مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں آتے ہیں۔ واپڈا کے ایک ملازم کا قول ہے کہ لوڈ شیڈنگ وہ بلا جسے بڑھنے سے حکومتیں بھی نہیں روک سکتیں۔ لوڈ شیڈنگ میں جان احتجاج سے پڑتی ہے بجلی کے جانے سے نہیں۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کی تاریں ائیر کنڈیشنر سے اور سردیوں میں ہیٹر سےجڑی ہوتی ہیں۔ بجلی کو سٹور کرنے کا سسٹم خیبر پختون خوا کے انجینئر تیار کرنے والے ہیں۔

یہ جو میں نے کالم میں لوڈ شیڈنگ کی کہانی شروع کر دی ہے اس کی وجوہات سراسر ذاتی ہیں قطعاً عوامی یا سیاسی نہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میں اپنے شہر میانوالی گیا، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے سبب دن کو چین آیا نہ رات کو نیند آ سکی۔ اوپر سے مچھروں کی فوج ظفر موج اللہ اللہ۔ ایک رات تو گاڑی کا اے سی آن کر کے اس میں گزار دی مگر ان دنوں پٹرول بھی پرس کا دشمن ِ خاص بنا ہوا ہے۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ رات پانچ ہزار روپے کے پٹرول میں بسر ہوئی ہے۔ مت پوچھیے کہ وہاں ہفتہ کیسے گزارا۔ اگلا ہفتہ ضلع اٹک میں بسر ہوا۔ احساس تک نہ ہوا کہ لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ ایک دو گھنٹے ہوتی ہے جنہیں یو پی ایس بیکنگ فراہم کر لیتے ہیں۔ میں نے سوچا یو پی ایس تو میانوالی میں بھی تھے۔ لگتا ہے وہاں آٹھ دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ اٹک کے بعد میں اکوڑہ خٹک آ گیا۔ وہاں تو یوں لگا جیسے بجلی کبھی کبھار صرف یہ بتانے آتی ہے کہ ابھی میں ہوں، فوت نہیں ہوئی۔ کیونکہ جب آتی تھی تو اتنے کم وولٹیج ہوتے تھے کہ موبائل فون چارج کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ خیر میں نے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ جن علاقوں میں جتنی زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے ان علاقوں میں اتنی زیادہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ میں اس فارمولے پر حیران رہ گیا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ جس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ فٹ آجائے اسی کو لٹکا دو۔ چوری کریں چار لوگ، بھگتنا پوری آبادی کو پڑ جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ چوری کو روکنا محکمے کا کام ہے، اس مقصد کے لئے انہوں نے ہزاروں ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ درست کام نہیں کر رہے تو ان کے خلاف کارروائی کیجئے۔ بھئی باقی لوگوں کا کیا قصور ہے۔ کے پی کے میں تقریباً ایک سو ساٹھ فیڈرز سے بجلی صرف دو گھنٹے فراہم کی جا رہی ہےکہ یہاں کے لوگ بل نہیں دیتے، پورے خیبر پختون خوا میں ہزار بارہ سو فیڈر ہونگے یعنی سوا چار کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً ستر اسی لاکھ لوگوں کو چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی دی جا رہی ہے۔ باقی تمام دیہی علاقوں میں سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے یعنی ڈیڑھ پونے دو کروڑ لوگ سولہ گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ صرف ایک سو پینتیس فیڈرز پر چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ یہ پورے صوبے کے تیس چالیس لاکھ خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔

کوئی بتائے کہ حکومت کے لئے بل وصول کرنا بھلا کیوں ممکن نہیں، بجلی چوروں کے خلاف کارروائی میں کتنی دیر لگے گی، پھر یہی لوگ ماضی میں بجلی کے بل ادا کیا کرتے تھے۔ اب کیا مسئلہ ہو گیا ہے۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ ممکن ہےخیبر پختون خوا کے کچھ علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہو مگر پنجاب کے ضلع میانوالی میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کیوں زیادہ ہے۔ دماغ نے کہا نہیں یہ کوئی اور مسئلہ ہے۔ بجلی کےلئے عوامی احتجاج درست ہے۔ علی امین گنڈا پور کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ یونہی نہیں وہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل‘ کے نظام کو اپنے کنٹرول میں لینے کا سوچتے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ تقسیم اور ترسیل کے نظام کے ساتھ بلوں کی وصولی کا نظام بھی صوبائی حکومت کو دیدے مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر ے گی کیونکہ یہ مسئلہ بجلی کی چوری یا بجلی کی کمی کا نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

آئیے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا لوگوں کو تکلیف دینے سے ان کے خیالات بدل سکتے ہیں۔ ہمیشہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جو حکمران لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں، لوگ ان کے مزید خلاف ہو جاتے ہیں۔ روز بروز عوام کا غصہ بڑھنے لگتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ غصہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتا ہے۔ حکومت کے خلاف جو لوگوں کے نظریات ہوتے ہیں وہ اور زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں، اتنے پختہ کہ نسلوں تک چلتے رہتے ہیں۔ اجتماعی دانش کا حصہ بن جاتے ہیں مگر لوگ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں ہوش نہیں ہوتا۔ اس بات کا اپنے ہی ایک شعر پر اختتام کرتا ہوں۔

وہ شرابی بھی ہو اور نشے میں نہ ہو ایسا ممکن تو ہے

وہ حکومت میں ہو اور نشے میں نہ ہو ایسا ممکن نہیں