مہاجرین کی معیشت

July 07, 2024

حکیمان ِ مغرب ،پاکستان کی بیمار معیشت کےعلاج کیلئے نت نئی دوا تجویز کرتے ہیں۔ کبھی قوم کو بجلی کے جھٹکےکھانے پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی شربتِ پٹرول کے کڑوے گھونٹ بھرنے پر آمادہ کر لیتے ہیں ۔ہم نے بڑے حکماء درآمد کیے۔ مملکت ِ ورلڈ بینک سے حکیم معین قریشی لائے۔ موجودہ وزیر خزانہ تک درآمد شدگان کی ایک فہرست ِ طولانی ہے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ میرے ایک دوست لیاقت بنوری نے بھی ایک نسخہ تجویز کیا ہے۔ مجھے تو وہ بہت قابل ِ عمل لگا ہے اور بہت سے دوسرےمسائل کا حل بھی۔ نسخے میں شامل ادویات کڑوی بھی نہیں۔ نسخہ صرف اتنا ہے کہ یورپ کی طرح ویزوں کے اجراکا نظام ترتیب دیا جائے۔

آئیے برطانیہ کے ویزوں کی اقسام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ برٹش وزٹ ویزا، برٹش ورک ویزا، برٹش بزنس ویزا، برٹش سٹڈی ویزا، برٹش انویسٹر ویزا، برٹش میرج ویزا اور برٹش فیملی ویزہ وغیرہ۔ یہ سوچ کر حیران نہیں ہونا کہ ایسے پاکستانی ویزوں کے خواہش مند کہاں سے آئیں گے۔ جنہیں یہ ویزے چاہئیں وہ پہلے سے موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پینتالیس لاکھ مہاجرین ہیں جن میں سےکچھ سرحد پار بھیجے مگر وہ دوسرے راستے سے پھر اندرآ گئے۔ ان میں سے کم از کم دس لاکھ افراد ہیں جو پاکستان میں عزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اپنے بچے پڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر صرف دو ہزار ڈالر میں بزنس ویزہ کا اجراکیا جائے تو یہی رقم اتنی زیادہ بنتی ہے کہ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ تمام کاروباری ٹیکس نیٹ میں بھی آ جائیں گے۔ ان کا ڈیٹا بھی جمع ہو جائے گا۔ یہ میں نے صرف ایک ویزےکا ذکر کیا ہے۔ میرج ویزے کیلئے تو چار پانچ ہزار ڈالر فیس دینے پر بھی لوگ تیار ہیں کیونکہ وہ پہلے سے یہاں شادیاں کر چکے ہیں اور پھر بھی ال لیگل ہیں۔ فیملی ویزے کی فیس اس سے بھی زیادہ رکھی جا سکتی ہے۔ کہنے کا مطلب ہےکہ وہ لوگ جو پاکستان میں قانونی مہاجر ہیں یا غیر قانونی مہاجرہیں انہیں ویزے ایشو کردئیے جائیں تاکہ وہ اس ملک کی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس وقت لوگ پاکستان سے باہر جارہے ہیں۔ خوش دماغوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہجرت کر چکی ہے اب مالدار بھی بوریا بستر گول کر رہے ہیں۔ ہر سال جانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پچھلے دو سال میں تو کئی گنا بڑھی ہے اور جانے والے اپنے تمام اثاثے بیچ کر یہاں سے نکل رہے ہیں۔ یعنی صرف دماغ نہیں سرمایہ بھی باہر منتقل ہو رہا ہے۔ دبئی میں پاکستانیوں کی انویسٹمنٹ سے اندازہ لگا ئیے کہ بارہ ارب ڈالر سے زیادہ کی صرف جائیدادیں ہیں، اس میں بزنس شامل نہیں۔ اگر دبئی جیسی سہولتیں یہاں لوگوں کو فراہم ہونا شروع ہو جائیں تو ہماری یونیورسٹیوں میں پھر سے غیر ملکی طلبا داخلہ لینے لگیں گے۔ ایک وقت تھا جب صرف لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں سینکڑوں غیر ملکی پڑھتے تھے۔ سیاحت کا شعبہ بھی اپنے عروج پر ہوتا تھا۔ دہشت گردی کا عفریت سب کچھ نگل گیا۔ بے شک اس دہشت گردی کے پس منظر میں بھی مہاجرین ہیں مگر یہ وہ ہیں جن کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے ۔یہ آتے ہیں شبخون مارتے ہیں اور پلٹ جاتے ہیں۔

مہاجرین میں سے بے شمار نے یہاں کاروبار کر لیے، شادیاں کرلیں مگر وہ خوف کی حالت میں ہیں کہ کسی بھی وقت حکومت ہم سے ہمارا سب کچھ چھین سکتی ہے۔ اصل میں ہم مہاجرین اور دہشت گردوں کو الگ الگ نہیں کر سکے۔ پھر ہمارے پاس ان کا ڈیٹا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقوام متحدہ کے نزدیک پاکستان میں صرف چودہ لاکھ مہاجرین ہیں اور ترکی میں چھبیس لاکھ۔ اقوام متحدہ اس حوالے سے سب سے زیادہ فنڈ ترکی کو فراہم کرتا ہے حالانکہ پاکستان میں مہاجرین کی تعداد پینتالیس لاکھ سے کسی طرح کم نہیں مگر ڈیٹا نہ ہونے کےسبب ہمیں مہاجرین کے سلسلے میں پوری فنڈنگ بھی نہیں ملتی۔ یہ ڈیٹاویزہ سسٹم کے اجرا سے خود بخود تیار ہوجائے گا اور دہشت گرد بھی چھپ نہیں سکیں گے ۔

پچھلے دنوں جب ہم نے مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ سخت سردی کے موسم میں انہیں پکڑ پکڑ کے سرحد پار بھیجنا شروع کیا جہاں دوسری طرف ان کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ہمیں چاہئے تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے سے بات کرتے ،ان کے ٹھہرانے کا بندوبست کراتے۔ انہوں نے وہاں جا کر کچھ نہیں کیا۔ بس دوسرے راستے سے واپس پاکستان آ گئے۔ وہ نسلیں جو تیس چالیس سے یہاں ہیں وہ کیسے افغانستان میں زندگی گزار سکتی ہیں جہاں ابھی تک نہ پوری طرح سیوریج سسٹم ہے نہ واٹر سپلائی ،جہاں نہ کوئی انگلش میڈیم اسکول ہےاور نہ اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے۔ بجلی کا نظام بھی بہت کم علاقوں پر محیط ہے۔زیادہ تر لوگ تو قبائلی زندگی گزارتے ہیں، یہاں آئے ہوئے مہاجرین جدید شہری زندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ وہاں جانے پر کسی صورت میں بھی تیار نہیں۔ سو ویزہ سسٹم کا اجرا ان کےلئے کسی بڑی خوشخبری سے کم نہیں ہو گا۔ اب ایک اور مسئلہ بھی ہے جو چمن بارڈر کو کئی ماہ سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے کہ ماضی میں صبح کام کرنے چمن آنے والے شام کو واپس اپنے علاقوں میں چلے جاتے تھے جو افغانستان میں ہیں۔ وہ لوگ ویزہ کی پابندی کے سبب پریشان ہیں۔ ان کے لئے یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ چمن شہر تک آ سکیں مگر انہیں اس سے آگے آنے کی اجازت صرف اسی صورت میں ملے جب وہ ویزہ حاصل کریں۔ بہر حال لیاقت بنوری کا خیال ہے کہ پاکستان کی معیشت فوری طور پر مہاجرین کے طفیل بہتر ہو سکتی ہے۔