جنگلیوں کی قبروں کے کتبے!

July 14, 2024

سید ضمیر جعفری نے انگریزی کے ایک مزاحیہ شاعر کی ان مختصر نظموں کو اردو میں ترجمہ کیا ہے، جو اس نے مختلف مشاہیر کی قبروں پر بطور کتبہ تخلیق کی ہیں۔ تاہم مغرب والے اپنے مرحومین کے ساتھ اس درجہ بے تکلف ہونا ’’افورڈ‘‘ کر سکتے ہیں جبکہ ہم مشرقی لوگ اس ضمن میں بہت محتاط ہوتے ہیں، چنانچہ ہم بہت سنجیدگی سے اپنے مرحومین کی قبروں کے کتبے تیار کراتے ہیں اور اس امر کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ قبرستان سے گزرنے والوں یا فاتحہ خوانی کیلئے آنے والوں پر مرحوم کی اس درجہ دہشت طاری کر دی جائے کہ وہ کتبہ دیکھ کر ’’با ادب، باملاحظہ ہوشیار‘‘ کی تصویر بن جائیں۔ چنانچہ آپ نے بہت سی قبروں پر مرحوم کے نام کے ساتھ اس کی ڈگریاں لکھی دیکھی ہوں گی اور وہ عہدہ بھی جس پر، یا جس کیلئے مرحوم نے وفات پائی ۔میں نے ایک قبر، جس کے آگے ایک خوبصورت سا باغیچہ تھا اور جس میں تازہ ہوا کیلئے روشن دان بنائے گئے تھے، کے کتبے پر تو ڈگریوں اور مناصب کی وہ بہار دیکھی کہ میں کچھ کنفیوژ سا ہو گیا اور صحیح اندازہ نہ ہوا کہ یہ کتبہ ہے یا اس جدید طرز تعمیر کی حامل انڈر گرائونڈ ’’کاٹیج‘‘ کی نیم پلیٹ ہے؟

ویسے یہ سطور لکھتے ہوئےخیال آیا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان تو مرنے کے بعد کتبے وغیرہ کی نعمت سے محروم ہی رہ جاتا ہو گا، کیونکہ اس بے چارے کا تو نہ کہیں جنازہ اٹھتا تھا اور نہ کہیں مزار ہوتا تھا۔ وہ سردی سے ٹھٹھر کر مر جاتا تھا اور جنگلی جانور اس کی ہڈیاں تک چبا جاتے تھے، بلکہ اس کا تو زندہ رہنا بھی ایک مسلسل امتحان تھا، کیونکہ اسے کھانے پینے کی نت نئی اشیاء ’’ایجاد‘‘ کرنے اور اپنی ضرورتوں اور ’’آسائشوں‘‘ کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے خاصے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ بہرحال اگر آج سے ہزاروں برس پہلے کے انسان کو پورے کپڑوں میں بیمار ہونے اور پورے علاج معالجے کے بعد مرنے کی سہولت حاصل ہوتی بلکہ مزید یہ کہ اسے مکمل اعزاز کے ساتھ دفن ہونے اور پھر قبر پر کتبہ لگانے کے مواقع میسر آتے تو ان قبروں پر خاصے انوکھے کتبے پڑھنے کو ملتے اور ظاہر ہے آج سے ہزاروں سال پہلے کے معاشرے میں بھی سائنس دان، حاکم، طبیب، دانشور، سیاست دان، ادیب اور مذہبی پیشوا وغیرہ بھی اپنی ابتدائی شکل میں بہرحال موجود ہوں گے، سو اس معاشرے میں اگر قبروں پر کتبے لکھنے کی ’’سہولت‘‘ موجود ہوتی، تو ان کی قبروں پر ہم آج کچھ اس طرح کے کتبے لکھے دیکھتے!

سائنس دان

چاند کے بارے میں تحقیقات کرتے ہوئے ایک روز اچانک اسے ایک گہری جھیل میں چاند نظر آیا۔ اس نے فوراً جھیل میں چھلانگ لگا دی اور فوت ہو گیا۔ مرحوم چاند تک رسائی حاصل کرنے والے پہلے انسان تھے۔

حاکم

اس نے اپنے ایک مخالف کو ’’فکس اپ‘‘ کرنے کیلئے غار کے دہانے پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا، جس میں وہ مخالف رہتا تھا مگر ایک روز ادھر سے گزرتے ہوئے خود ہی اس پتھر کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا۔

عالم

اس نے ایک تقریر میں کہا کہ زلزلے ان گنہگاروں کی وجہ سے آ رہے ہیں، جو ہمارے درمیان موجود ہیں اور جن کا ظاہر باطن ایک نہیں ہے۔ اگر ہم ان لوگوں سے نجات حاصل کر لیں تو زلزلوں کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ دوران تقریر ایک زلزلہ آیا اور وہ ایک چٹان کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد زلزلوں کا سلسلہ رک گیا!

شاعر:

اس نے اپنی محبوبہ سے کہا، میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ یقین نہیں آتا تو میرا دل چیر کر دیکھ لو۔ محبوبہ نے فوراً اس کا دل چیر کر دیکھا جس میں اس قسم کی کوئی چیز دکھائی نہیں دی تاہم موصوف اس عمل کے دوران انتقال کر گئے۔

طبیب:

ایک دفعہ بیمار پڑنے پر اس نے اپنا علاج خود کیا اور فوری وفات پائی!

اور آخر میں سرمد صہبائی کی ایک غزل:

فلک پناہ نہ دے اور زمیں قدم کھینچے

رُکوں تو طوقِ شب وروز میرا دم کھینچے

سنبھلنے دے نہ کہیں مجھ کو لغزشِ ہستی

جو صبحِ ُکن میں رہوں تو شبِ عدم کھینچے

وفور غم سے شرربار ہو رہا ہے

وہ آگ ہے کہ رگِ چشمِ تَر کا نم کھینچے

مرے بدن پہ وہ اپنا بدن بناتا ہے

خط۔کمر کہیں قوس- سریں کاخم کھینچے

اُلجھ گیا ہوں میں کس کاروبارِ وحشت میں

غمِ زمانہ نہ چھوڑے جو تیرا غم کھینچے

یہ کس نشاطِ تغافل میںہوں کہ اب دل کو

خدا کی یاد نہ، دلداریء صنم کھینچے

پھر اس غبارِ پریشاں میں لوٹ آتاہوں

یہ کون ہے جو مجھے یوں جنم جنم کھینچے

سنائی دے نہ مجھے ہرزہ ء سگ دنیا

کوئی صداےء دگر مجھ کو دم بہ دم کھینچے

ورق ہے دشتِ ہویدا کوئی، جہاں سرمد

ہزار نقش مرا آہوئے قلم کھینچے