اوقاف یونیورسٹی

July 15, 2024

مولانا عبدالستارخان نیازی میری زندگی کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ نوجوانی کی بات ہے کہ ایک دفعہ جنرل ضیاءالحق نے انہیں چھ ماہ کیلئے اپنے میانوالی والے گھر میں نظر بند کر دیا۔ سو اس فراغت کے وقت میں انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر دو کتابیں لکھنے کا سوچا اور کہا کہ میں بولتا جائونگا اور کوئی اسے لکھتا جائے۔ پھر یوں ہوا کہ قرعہِ فال میرے نام نکلا ۔ وہ دن بھر بولتے تھے اور میں لکھتا تھا۔ اس طرح انکے ساتھ چھ ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ حیرت انگیز آدمی تھے۔ لمبا طرہ اور شاندار اچکن پہنا کرتے تھے مگر جب قمیض اتارتے تھے تو بنیان تک پھٹی ہوتی تھی۔ انہوں نے لاہور جمعیت علمائے پاکستان کا دفتر جہاں بنایا تھا وہ زمین وقف اراضی کی تھی۔ کئی لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ بس ایک فون پر یہ زمین ہمیشہ کیلئے آپ کے نام ہو سکتی ہے۔ آپ اگر اپنے نام نہیں کرانا چاہتے تو کوئی ادارہ بنا کر اسکے نام کرا دیں۔ وہ خود بھی یہی چاہتے تھے کہ یہاں قرآن و حدیث پر تحقیق کا عظیم الشان ادارہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے میاں محمد نواز شریف کیساتھ اس سلسلے میں بات کی۔ میاں نواز شریف انکا بہت احترام کرتے تھے اور انہیں بزرگ سمجھتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد اسی خیال سے وہ باون کنال زمین میاں محمد نوازشریف نے اوقاف کو دیدی کہ انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹڈیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ میاں شہباز شریف نے بھی اس کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں اس مقصد کیلئے بہت ہی خوبصورت اور بہت ہی قیمتی عمارت تعمیر کی گئی۔ لاہور میں اتنی خوبصورت عمارت شاید ہی کوئی ہوتی۔ پچھلے دنوں جب مجھے پتہ چلا کہ وہ ادارہ کسی سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں اور اس ادارے کو ختم ہونے سے بچائیں۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد علوم قرآنی اور علوم سیرت کا فروغ تھا تاکہ عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش مسائل کا قابلِ عمل حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا جاسکے۔ اسکے خدو خال میں عظیم الشان قرآن میوزیم اوردنیا کی سب سے بڑی اسلامی لائبریری کا قیام بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے مدینہ منورہ میں ایک قرآن میوزیم موجود ہے۔ وہاں قرآن مجید کا سب سے قدیم نسخہ رکھا گیا ہے جو 488 ہجری (1095 عیسوی) کا ہے۔ وہاں قرآن حکیم کا سب سے بڑا نسخہ بھی موجود ہے جس کا وزن ایک سو چون کلو گرام ہے ۔پاکستان میں بھی قرآن حکیم کے انتہائی نادر نسخے موجود ہیں جن میں سے کچھ پنجاب یونیورسٹی کے پاس ہیں ،کچھ پنجاب آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود ہیں ۔اس کے علاوہ بھی بہت سی لائبریریوں میں قرآن حکیم کےبہت سے قدیم نسخے موجود ہیں۔ اوقاف کے اپنے بھی ایسے کچھ نسخے اور چیزیں ہیں ۔جنہیں بادشاہی مسجد میں آویزاں کیا گیا ہے۔ قرآن میوزیم دراصل ایک اسلامی میوزیم ہو گا اور اس حوالےسے محکمہ اوقاف کے پاس پہلے سےبہت کچھ موجود ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی جدید اسلامی لائبریری بنانے کے خواب کوبھی تعبیر ملنی چاہئے۔ اس میں دنیا بھر سے اسلامی کتب کی ڈیجیٹل کاپیاں حاصل کرکے رکھی جائیں ۔ یعنی چودہ سوسال میں اسلام کے موضوع پر جو بھی اہم ترین کتاب تحریر کی گئی ہے وہ وہاں کسی نہ کسی صورت میں موجودہوگی ۔تمام اسلامی مینو سکرپٹس کی ڈیجیٹل کاپیاں حاصل کرکے وہاں رکھی جائینگی۔ وہ لائبریری دنیا بھر کے ریسرچ سکالرز کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگی۔ انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈسیرت اسٹڈیز کی عمارت بھی انہی خدو خال کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی گئی تھی۔وزیر اعلیٰ کو اس عمارت کا دورہ کرنا چاہئے۔ دیکھنا چاہئے کہ اتنی خوبصورت عمارت ابھی تک اپنی خوبصورتی اہل لاہور پر کیوں نہیں ظاہر کر سکی اور سیکریٹری اوقاف کو فوری طور پر اس کے خدو خال پوری طرح نمایاں کرنے کا حکم دینا چاہئے ۔مجھے اوقاف یونیورسٹی کے قیام کے متعلق بھی علم ہوا۔ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہونیوالا سب سے اہم کام ہوگا ۔اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کے سیکریٹری اور ایڈمنسٹریٹر طاہر رضا بخاری کو کریڈٹ دینا بھی ضروری ہے۔انہوں نے ہمیشہ بڑے بڑے منصوبے سوچے اور انہیں تکمیل تک بھی پہنچایا۔ طاہر رضا بخاری اتحاد بین المسلمین کے بھی بہت بڑے داعی ہیں اور ہمیشہ اس نیک کام میں مصروف رہے ہیں ۔وہ تمام مکاتب ِ فکر میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔محرم کے دنوں میں امن و امان کےسلسلے میں ان کی کوششیں قابل تعریف ہیں ۔اوقاف یونیورسٹی یقیناً دنیا میں تصوف کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہوگی ،وزیر اعلیٰ پنجاب جس طرح سرکاری سطح پر بہت بڑا کینسر ہسپتال بنانے جارہی ہیں۔ اسی طرح تصوف کی یہ اوقاف یونیورسٹی بھی ایک اہم ترین یونیورسٹی ہوگی۔جس میں پانچ سو سے زائد بزرگانِ دین کے حوالے سے روحانی و علمی تحقیق کا کام بھی ہوگاجن کے مزارات اوقاف کے پاس ہیں ۔ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم بھی پڑھائے جائینگے جو انسانی شخصیت میں انقلاب لانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔