بِلاعنوان

July 16, 2024

حالیہ دنوں میں ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ایک فیصلہ آیا ہے جس پر پوری قوم حیران ہے۔ حیرانی کی وجہ یہ نہیں کہ فیصلہ کس فریق کے حق میں آیا اور کس کے خلاف ۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں غالب امید یہی ہوتی ہے کہ عدالت مقدمہ میں دلائل سن کر ہمیشہ یہ دیکھتی ہے کہ کونسا فریق حق اور سچ پر ہے اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی فریق کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔ کیونکہ معزز جج صاحبان بھی انسان ہیں اور ایک دن انہوں نے بھی خود سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں ایک ایک ذرے کا حساب دینا ہو گا ۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انصاف اس کو دیا گیا جس نے نہ یہ انصاف مانگا تھا نہ وہ فریق تھا نہ اس کا وکیل تھا۔ مقدمہ تو کوئی اور لے کر عدالت میں گیا اور اس فریق کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے، دلائل دینے اور انصاف کا تقاضا و درخواست کی لیکن اس کی درخواست کو مسترد کیا گیا اس فریق کا مقدمہ خارج کیا گیا اور ایک غیر متعلقہ کو فریق بنا کر اس کے حق میں نہ صرف فیصلہ دیا گیا بلکہ وہ سب کچھ دیا گیا جو اس نے مانگا تھا نہ اس کو امید تھی اسلئے وہ بھی اس بن مانگے عطا پر خود بھی حیران ہے۔ یہ ایک ایسا عجیب فیصلہ ہے کہ نہ مدعی ہے نہ وکیل ہے نہ دلیل ہے اور نہ ہی آج اس کی کوئی نظیر نظر آئی ہے۔ اندازہ کریں کہ پاکستانی قانون کے مطابق کامیاب آزاد امیدوار نے الیکشن کے تین دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہوتی ہے ہے اس لئے بعض کا میاب آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور حلف نامہ جمع کرایا لیکن اب اس مذکورہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام امیدوار پندرہ دن کے اندر نیا حلف نامہ دے کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لیں۔ یہاں ایک اور سوال یہ ہے کہ آخر الیکشن کمیشن جو کہ ایک آئینی ادارہ ہے کا کیا کردار ہے کیا الیکشن والے دن ہی اس کا کردار نظر آنا چاہئے اس سے پہلے یا بعد میں اس کا نہ کوئی اختیار ہے نہ کردار ہے پھر اس ادارے پر اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے نہ اتنے دفاتر اور اتنے عملے کی ضرورت ہے نہ اربوں کے بجٹ کی۔ پوری قوم کی طرح شاید الیکشن کمیشن کو بھی یہ غلط فہمی تھی کہ اس کو آئین و قانون کے مطابق کچھ اختیارات حاصل ہیں۔ قوم کیا سمجھے کہ ریاست پاکستان بے بس ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس فیصلے کے اثرات پاکستان کے سیاسی مستقبل پر پڑیں گے ۔ ایک طرف تو ملک میں استحکام اور امن و سکون کےلئے ’’ عزم استحکام‘‘ پر کام ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف اس فیصلے سے عدم استحکام کا خدشہ ہے ۔ یہاں ایک اور سوال یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کا کلیم ہی نہیں تھا۔ سنی اتحاد کونسل وہاں بھی فریق تھی ۔ سنی اتحاد کونسل کے آئین میں غیر مسلم کوورکر تسلیم نہیں کرتے ۔ نہ پشاور ہائی کورٹ کی اپیل میں پی ٹی آئی فریق تھی نہ ہی سپریم کورٹ میں۔ اس عدالتی فیصلے سے لگتا ہے کہ آئین کی متعلقہ شقوں کو دوبارہ لکھا گیا ہے۔ چونکہ اس فیصلے سے بعض سوالات نے جنم لیا ہےاس لئے ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلنے کا خدشہ ہے۔ دوسری طرف بیرونی سرمایہ کاری کو بھی دھچکا لگے گا۔ شاید کچھ لوگ چاہتے بھی یہی ہیں ۔ سوچئے کہ ایسے حالات میں یہاں کون آکر سرمایہ کاری کرے گا۔ سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آج جو لوگ اس بن مانگے عطاپر بغلیں بجا رہے ہیں اور اس فیصلے کو انصاف کا بول بالا کہتے ہیں عنقریب ان کو مایوسی بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک ملک اور عوام کا تعلق ہے ان کے لیے SIFC نے انتھک محنت اور کوشش کی ہےکہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہو اور عوام کی معاشی حالت میں بہتری آئے۔ دوسری طرف آپریشن عزم استحکام کی تیاری ہے تو اگر کوئی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور انار کی پھیلانے کی کوشش کرےگا تو کیسے برداشت کیاجا سکتا ہے۔ قوم خود فیصلہ کرے کہ ملک کے خیر خواہ کون ہیں اور بدخواہ کون ہیں۔ پی ٹی آئی کا ابھی سے یہ حال ہے کہ اس جماعت کواندازہ ہے کہ ان کےبعض لوگ کہیں اور جا سکتے ہیں اور کوئی فارورڈ بلاک بن سکتا ہے ابھی الیکشن کمیشن کا ایک اور فیصلہ بھی آرہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں کیونکہ ہنوز دلی دور است ۔ اب تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بیرون ملک بالخصوص امریکہ میں کچھ لوگوں کے لاکھوں ڈالرز بھی ڈوب گئے جو وہ پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنے کے لئے خرچ کر چکے ہیں ۔ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنے کی ہرکوشش چاند کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے کہ تھوکنے والا چاند کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا الٹا اپنا منہ گندا کر لیتا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ آزاد ارکان میں سے کتنے پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے ارکان اسمبلی پر پی ٹی آئی میں شمولیت نہ کرنے کا دباؤ ہے۔ یہ ان مذکورہ بالا باتوں کی تصدیق ہے جو ہم نے کہا ہے۔ بہرحال جلدسب کچھ سامنے آجائے گا۔ ملک اب مزید اتفرادی کا متحمل نہیں ہوسکتا بس پاکستان کی خیر ہو۔ کسی کو بھی ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی مزید اجازت نہیں دی جاسکتی۔