بلڈر کے اثاثوں پر زکوٰۃ

July 12, 2024

تفہیم المسائل

سوال:فلیٹس کی تعمیر کرنے والے بلڈرز کی زکوٰۃ کس مال پر اداکی جائے گی، فلیٹس کی بکنگ اور تعمیر کے وقت بلڈر کے پاس تین طرح کی رقوم ہوتی ہیں: (۱) ذاتی رقم (۲) خریدار سے اقساط کی صورت میں وصول کی جانے والی رقم (۳) بینک سے قرض لی جانے والی رقم ۔ اس مجموعی رقم سے بلڈر پہلے زمین خریدتا ہے اور پھر تعمیراتی سامان (لوہا ،سیمنٹ ،بجری وغیرہ )،فلیٹس کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے اور ممبران کی ماہانہ قسطیں بھی جمع ہوتی رہتی ہیں، عموماً تعمیر اور قبضے کا دورانیہ دو تا پانچ سال ہوتا ہے اور اس میں مزید دو سال بڑھائے جاسکتے ہیں۔

ایک پروجیکٹ اگر 70 کروڑ کا ہے ، تو اس میں 20کروڑ بلڈر کے ، 20کروڑ بینک لون اور 30کروڑ خریداروں سے بکنگ واقساط میں وصول ہوئے ، تعمیر مکمل ہونے پر یہ پروجیکٹ سو کروڑ کا ہوجائے گا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس سارے عمل میں زکوٰۃ کب اورکتنے مال پر دیں اورکیا ہرسال اداکریں ۔ نامکمل فلیٹس نہ بکتے ہیں اور نہ اُن کی قیمت کا تعین ہوتا ہے ،تعمیر قسطوں کی وصولی پر موقوف ہوتی ہے ۔فلیٹس بک ہوتے رہیں اور رقم فلیٹ کے عوض ملتی رہے گی ، اس رقم پر زکوٰۃ ہے یابک شدہ فلیٹ پر ؟ (فرحان ، معرفت: دارالافتاء دارالعلوم امجدیہ ،کراچی)

جواب: سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ فلیٹس کی بیع چونکہ معدوم کی بیع ہے اوراصولی اعتبار سے حدیث کی رُو سے معدوم کی بیع جائز نہیں ہے ۔ زمانہ سَلف میں عمارات کا ’’اِستِصناع‘‘ نہیں ہوتا تھا، مگر موجودہ دور میں عمارات کا استصناع رائج ہے، معمول بہٖ ہے، اس کا تعامل جاری ہے ، بلکہ حال یہ ہے کہ یہ کاروبار اس وقت دنیا میں انتہائی عروج پر پہنچ چکاہے اوربڑھتی ہوئی آبادی کے سبب معاشرے کی ضرورت بن چکا ہے ، یکمشت نقد قیمت دے کر مکان یا دکان خریدنا لوگوں کی قوت سے باہر ہوتا ہے ، اس لیے یہ شعار ضرورت کی بناءپر رائج ہے۔

یہ واضح ہے کہ تعمیر شروع ہونے سے قبل جس قطعۂ زمین یعنی پلاٹ پر فلیٹس تعمیر کیے جانے ہیں ، بلڈر کی ملکیت ہوتاہے ، پس بلڈر پر بازاری قیمت کے مطابق اس کی زکوٰۃ اداکرنا لازم ہے ،اگر ایک سے زائدافراد شریک ہیں ،تو اپنے اپنے حصے کے بقدر زکوٰۃ اداکریں گے ،یعنی اس کی موجودہ بازاری قیمت کو اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرکے زکوٰۃ اداکریں گے ۔بینک سے جو رقم بطور قرض لی ہے ، اُسے بلڈراپنی کل مالیت سے منہاکردے گا ، البتہ بینک کے واجب الادا قرض کی جتنی اقساط بلڈر نے اداکردی ہیں، وہ ازخود قرض سے منہاہوجاتی ہیں، ڈاکٹر یوسف قرضاوی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ زکوٰۃ اخراجات ، ٹیکس، اجرتیں، کام اور حفاظت کے اخراجات منہا کرنے کے بعد خالص آمدنی پر عائد ہوتی ہے اور جن قرضوں کی صحت ثابت ہوجائے، وہ بھی آمدنی سے منہاہوجائیں گے اور اخراجات بھی منہاہوجائیں گے، جیسا کہ پھلوں اور فصلوں کے بارے میں عطاء کی رائے ہے ،وہ کہتے ہیں : ’’اپنے اخراجات نکال لو اور باقی پر زکوٰۃ ادا کرو ‘‘، (فقہ الزکاۃ ، جلد1،ص:542-43)‘‘۔ایک ضمنی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے فقہائے احناف کے نزدیک کل زرعی پیداوار پر عُشر واجب ہوگا ، تشخیص عشر کے لیے کاشت کاری ، کھاد وغیرہ ، آبیانہ اورکٹائی کے مصارف کو وضع نہیں کیاجائے گا ۔ لیکن موجودہ دور میں ہمارے فقہاء اور مفتیانِ کرام کے لیے یہ مسئلہ قابلِ غور ضرور ہے ،کیونکہ لوگوں نے ہمیں بتایاہے کہ کاشتکاری کے مصارف پیداوار کے تیس چالیس تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر خشک سالی، سیلاب یا آفت آجائے تو کاشتکاراور زمیندار کو بھاری نقصان بھی ہوجاتا ہے۔

اِستِصْنَاع کا معاملہ طے ہو جانے کے بعد بلڈرفلیٹ کاقبضہ دینے سے پہلے خریدار سے اُس فلیٹ کی مد میں جو یکمشت رقم معاہدے کے وقت اور پھر اقساط کی صورت میں لیتا جائے گا،وہ بلڈر کی ملکیت بنتی جائے گی اور اس کی زکوٰۃ بلڈر ہی پر واجب ہو گی ۔فلیٹس یا پلازہ مکمل تعمیر ہوچکا ہے ،تو اس کی بازاری قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ فرض ہوگی اورسال مکمل ہونے تک جتنے فلیٹ فروخت ہوگئے ،وہ بلڈر کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں آگئے ، اُن فلیٹس کی زکوٰۃ بلڈر پر نہیں ہوگی۔

الغرض سال مکمل ہونے پر جو فلیٹس، خواہ تعمیر مکمل ہوگئی ہو یا نامکمل ہو، یازمین کا حصہ بلڈر کی مِلک میں باقی ہے، نیزخریداروں سے بلڈر جو رقم وصول کرچکا ہے ، یوں ہی جو رقم خریداروں سے وصول کرنا باقی ہے ،ان سب کو جمع کرنے اور اخراجات کو منہا کرنے کے بعد باقی بچ جانے والی رقم کی زکوٰۃ اداکی جائے گی ،یہ اُس پر منحصر ہے کہ واجب الوصول رقوم کی زکوٰۃ اب اداکرے ، ورنہ جب مل جائے گی تو ماضی کے برسوں کی زکوٰۃ بھی دینی ہوگی ، صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’ دَین قوی کی زکوٰۃ بحالتِ دَین ہی سال بسال واجب ہوتی رہے گی ، مگر واجب الادا اُس وقت ہے، جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہوجائے ، مگر جتنا وصول ہوا ،اُتنے ہی کی واجب الادا ہے، (بہارِ شریعت ، جلد1،ص:906)‘‘۔ آسان عمل یہ ہے کہ ہر سال اپنے دیگر اَموال کے ساتھ اُس کی بھی زکوٰۃ اداکرتے رہیں ،تاکہ بعد میں ادائیگی اور حساب کرنے میں دشواری نہ ہو ، خلاصۂ کلام یہ ہے :

(۱)بلڈر اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ کے وقت اپنے تمام زیرملکیت کاروباری اثاثوں، سونا چاندی ، نیز نقد رقوم کو جمع کرے گا اورقرض (اگر کچھ ہے)کو منہا کرکے اپنی مجموعی مالیت پرڈھائی فیصد زکوٰۃ اداکرے گا۔

(۲)ظاہرہے کہ اگلے سال زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ کے وقت نصاب سلامت ہوگا ،تو اگلے سال اور یوں ہی ہرسال زکوٰۃ اداکرے گا ۔

(۳) سال مکمل ہونے پر تعمیر شدہ یا نامکمل فلیٹس یازمین کاایسا حصہ جوبلڈر کی مِلک میں باقی ہے، خریداروں سے وصول شدہ رقم ،سب کو جمع کرے، اس میں سے اخراجات منہا کرے اور پھر بقیہ رقم پر زکوٰۃ اداکرے ۔

(۴) بلڈر کی مرضی ہے کہ واجب الوصول رقوم کی زکوٰۃ ابھی اداکرے یا ملنے کے بعد اداکرے ، بعد میں اداکرنے کی صورت میں ماضی کے برسوں کی زکوٰۃ بھی اداکرنی ہوگی ۔(واللہ اعلم بالصواب)