دریا کے خواب سے محروم نسلیں

July 27, 2024

ایران کے شہر نیشاپور میں بارہویں صدی کے وسط میں شیخ فریدالدین نام کا ایک شخص پیدا ہوا۔ اپنے آبائی پیشے کی نسبت سے فرید الدین عطار کہلاتا تھا۔ کوئی تیس برس کی عمر میں فرید الدین نے قریب 4600اشعار پر محیط ایک مثنوی ’منطق الطیر‘ لکھی۔ دور دراز بستیوں، اجنبی منطقوں اور دشوار گزار بستیوں کا سفر کر کے اپنے زمانے کے اصحاب علم سے ملاقات اور استفادے کے جواہر ریزے سمیٹ کر اس شخص نے قلم اٹھایا تو ’سیمرغ‘ نامی اساطیری پرندے کی زبانی ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا جو خوف سے آزاد ہو۔ جہاں خراج وصول کرنے والے سلطانوں نے زمین پر حد بندیاں قائم نہ کر رکھی ہوں۔ جہاں انسانوں کا انسانوں سے مکالمہ اجنبیت، نفرت اور جارحیت سے خالی ہو۔1221 ء کی ایک شام سپاہی کی رعونت اور تلوار کی وحشت نے فرید الدین عطار کے دروازے پر دستک دی۔ منگول لشکر نے فرید الدین کو غلام بنا لیا۔ علم کی راہِ سلوک کے مسافر اور جنگ و جدل کے اُجڈ کارندوں میں مکالمے کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ منگول جرنیل نے مسلم تہذیب کی نابغہ روزگار ہستی فریدالدین عطار کا سر تن سے جدا کر دیا۔ عہد جدید میں مراکش نژاد مسلمان مفکر اور مصنفہ فاطمہ مرنیسی نے ’اسلام اور جمہوریت : جدید دنیا کا خوف‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ کتاب کے آخری باب کا عنوان بامعنی ہے۔ ’ہم ہی توسیمرغ ہیں‘۔ فاطمہ مرنیسی نے معاشی پسماندگی، علمی جہالت اور سیاسی استبداد تلے سسکتے مسلم معاشروں کے لیے فریدالدین عطار جیسے اصحاب نظر کے سینوں کی روشنی میں جمہوریت، انصاف اور خوشیوں کا خواب دیکھا تھا۔ فاطمہ مرنیسی کا انتقال نومبر 2015 ء میں ہوا۔

فاطمہ مرنیسی کا ذکر ہو چکا۔ اب بیسویں صدی کے دو بڑے ادیبو ں سے رہنمائی لی جائے۔ ٹھیک سو برس پہلے مارسل پرائوست نے Remembrance of the things past کی پہلی جلد کا اختتام ذیل کے جملے پر کیا۔

Remembrance of a particular form is but regret for a particular moment; and houses, roads, avenues are as fugitive, alas, as the years.

( کسی موہن روپ کو یاد کرنا کسی گزرے ہوئے لمحے کو واپس بلانے کی لاحاصل آرزو ہے۔ افسوس کہ بیتے ہوئے برسوں کی طرح گھر، گلیاں اور کوچے بھی اوجھل ہو جاتے ہیں)۔ مارسل پرائوس سے کوئی نصف صدی بعد گبریل گارشیا مارکیز نے اپنا ناول ’تنہائی کے سو برس‘ ذیل کے جملے پر ختم کیا تھا۔

…races condemned to one hundred years of solitude did not have a second opportunity on earth.

(بے گانگی میں ایک صدی گزارنے والی نسلوں کو دھرتی کی طرف لوٹنے کا دوسرا موقع نہیں ملنا تھا)۔ مارسل پرائوست پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنا ناول لکھ رہا تھا۔ اس جنگ میں دو کروڑ انسان مارے گئے اور چار بڑی سلطنتیں ختم ہو گئیں۔ کہا جا رہا تھا کہ یہ جنگ دنیا سے آئندہ جنگو ں کو ختم کرنے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ یہ محض ایک صحافتی ڈھکوسلا تھا۔ اس جنگ میں پرانی دنیا تو ختم ہو گئی لیکن نئی دنیا پیدا نہیں ہو سکی۔ بیس برس پر پھیلی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد دوسری عالمی جنگ میں چھ کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے یعنی اس وقت کی انسانی آبادی کا قریب تین فیصد حصہ۔ اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد ہم باہم خوف کے توازن پر قائم دنیا کے باسی ٹھہرے۔ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دنیا 5 نومبر کو منعقد ہونے والے امریکی انتخاب پر نظر ٹکائے بیٹھی ہے کیونکہ اس کے اثرات یورپ سے چین اور روس سے بھارت تک پہنچیں گے۔ ادھر ہمارے ملک میں بھی ایک عہد عبور گزر رہا ہے۔ کچھ لوگ طاقتور ریاست اور مفلوج جمہوری قوتوں کے ان کہے بندھن سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ حلقے انتشار اور انہدام کے انتظار میں ہیں۔ یہ بہرصورت طے ہے کہ ہمارے بیچ کوئی جوبائیڈن نہیں ہے جو ہم سے سوال کرے۔

“America’s going to have to choose between moving forward or backward, between hope and hate, between unity and division. We have to decide, do we still believe in honesty, decency, respect, freedom, justice and democracy…?

(امریکا کو انتخاب کرنا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے یا ماضی کی طرف لوٹنا ہے۔ہمیں امید اور نفرت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اتحاد اور تفرقے میں انتخاب کرنا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم آج بھی دیانت، تہذیب، احترام، آزادی، انصاف اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟) وہ قومیں خوش قسمت ہیں جو صحیح وقت پر اپنا سوال مرتب کرنے کی جرأت رکھتی ہیں۔ زمینی حقیقتوں سے ہماری بیگانگی سو برس پر پھیلی ہے۔ ہمارے فیصلے ان نادیدہ ہاتھوں میں ہیں جو سیاسی وراثت تخلیق کرنے کی اہلیت، تربیت اور اختیار نہیں رکھتے۔ جنہیں یہ امانت اٹھانا تھی، انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ اہل دانش دہائیو ں پر پھیلے زینہ بہ زینہ زوال کے نتیجے میں فکری افلاس کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں ڈونلڈ لو پاکستان کے لیے دس کروڑ ڈالر مانگ رہا ہے۔ کچھ یاد آیا کہ 2002ء سے 2016ء تک ملنے والے اربوں ڈالر کس غار میں غائب ہو گئے اور ہم ’کھل جا سم سم‘ کا طلسمی اسم کیسے بھولے؟۔

طالبان کے ہاتھوں کابل کے چوراہے پر ستمبر 1996ء میں قتل ہونے والے ڈاکٹر نجیب اللہ اکثر ایک جملہ دہراتے تھے۔ ’میرے ملک کی تاریخ درخشاں ہے لیکن جغرافیہ کڈھب ہے‘۔ ہمارے بیچ کوئی ایسا مرد عارف بھی موجود نہیں جسے اس اعتراف کی ہمت ہو کہ’ ہمارا جغرافیہ امکانات سے معمور ہے لیکن ہماری تاریخ کٹی پھٹی ہے‘۔ تاریخ کی رفوگری کے لیے سیاسی بصیرت کی روشنی میں دستور کے سوئی دھاگے سے مدد لی جاتی ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادست رہنمائی میں حرف قانون اور تمدنی مکالمے کے تعامل سے اگلی منزلوں کی صورت گری کی جاتی ہے۔ جوبائیڈن خوش قسمت ہے کہ اپنی منقسم قوم سے کم از کم جمہوریت کے سوال پر فیصلے کا مطالبہ تو کر سکتا ہے ۔ ہمارے ملک میں جمہوریت پر غیر متعین اسمائے صفت کی چادر ڈال دی گئی ہے۔ کنٹرولڈ جمہوریت، بنیادی جمہوریت، عوامی جمہوریت، اسلامی جمہوریت اور ہائبرڈ جمہوریت کے تجربے ہم نے کر کے دیکھ لیے۔ ہائبرڈ جمہوریت کے حالیہ تجربے کا ملبہ غزہ کی تباہ کاری کو شرماتا ہے لیکن افسوس کہ ہم قید یاغستان میں ہیں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کے پار کسی ٹھنڈے میٹھے دریا کا خواب تک سلامت نہیں۔