قیدی بنگال کے

March 27, 2014

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے ہر قسم کے ایوارڈ سے پاک رکھا ہوا ہے حکومتیں جو ایوارڈ دیتی ہیں یہ کن خدمات کے صلے میں ہوتے ہیں اس کی وضاحت ضروری نہیں، بس اتنا ہی کافی ہے کہ ’’قومی‘‘ خدمات کے صلے میں یادگاری ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ دل کی تسلی کیلئے ان ایوارڈوں کے مختلف نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ماضی میں صدر آصف علی زرداری تھوک کے حساب سے ایوارڈز تیار کراتے تھے اور پھر جس کسی کی یاد آجاتی تھی، اسے ایوارڈ دے دیا جاتا تھا۔ انہوں نے بعض پارٹی کارکنوں کو بھی قومی خدمات میں نمایاں مقام کے ساتھ یاد کیا اور انہیں بھی صدارتی ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا۔ یہ ایوارڈز غیر ملکیوں کو بھی دیئے جاتے ہیں، ہوتا یہ سب کچھ ڈرامہ ہی ہے، ہر مرتبہ ڈرامے کے کردار تبدیل کردیئے جاتے ہیں۔
حسینہ واجد کا پاکستان سے بغض ابھی ختم نہیں ہوا سال دو سال پہلے انہوں نے چند پاکستانیوں میں ایوارڈز بانٹے تھے اب انہوں نے اپنے بنگلہ دیشی عوام کو بہت بڑا ایوارڈ دیا ہے کہ بنگالی عوام سوائے اپنی ٹیم کے کسی ٹیم کا حوصلہ نہیں بڑھا سکتے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے یہ سارا کام پاکستان کیلئے کیا ہے کیونکہ اب بھی جب ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے میدانوں میں پاکستانی کھلاڑی اترتے ہیں تو پرانی محبت جاگ اٹھتی ہے، بہت سے بنگالی خاندان ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامے کرکٹ اسٹیڈیم پہنچ جاتے ہیں۔ بنگالی بچے، بڑے، بوڑھے اور عورتیں سب پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے اس عالمی میلے سے پہلے حسینہ واجد کا خیال تھا کہ بنگالی اب بھی اس کے والد کے پُرفریب جادو کے اثر میں ہیں وہ بنگال کے میدانوں میں بھارتی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ اس سوچ کے جواب میں یہ مقام آگیا کہ بنگلہ دیش کی اپنی ٹیم تو اس قابل نہیں کہ وہ دنیا کی بڑی ٹیموں کو مارے لہٰذا انہوں نے میچ کے دوران کسی نہ کسی ٹیم کی حوصلہ افزائی تو کرنی تھی اب سوال یہ پیدا ہوگیا کہ ڈھاکہ کے اسٹیڈیم میں جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے ہمدرد اتنے تو ہو نہیں سکتے کہ گرائؤنڈ ہلا کر رکھ دیں، آجا کے مقابلہ پاکستان اور انڈیا میں ہونے لگا۔ بنگلہ دیش کے اسٹیڈیم پاکستانی پرچموں، پوسٹروں اور نعروں سے سجنے لگے تو کالی ماتا کو غصہ آگیا بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکومت نے اپنے ہی شہریوں پر پابندی لگادی کہ وہ سوائے بنگلہ دیشی ٹیم کے کسی اور کی حمایت نہیں کرسکتے ایسا کرنے والوں کودیکھتے ہی سزا دے دی جائے گی۔ حسینہ واجد کے جادوگر باپ نے پاکستان کو دولخت کیا پھر جاکے موصوف کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا اب ان کی صاحبزادی کی پیاس پتہ نہیں کب بجھے گی۔ محترمہ نے جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں پر ظلم وتشدد کیا، پاکستان سے محبت کے جرم میں کچھ کو پھانسیاں عطا کردی گئیں موصوفہ لوگوں کے دلوں میں سے پاکستان کی محبت نکالنا چاہتی ہیں اس راستے میں انہیں کامیابی نہیں مل رہی ۔ ہر مرتبہ مکتی باہنی کا جادو نہیں چلتا۔ یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش بن چکا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان دو الگ الگ ملک ہیں مگر محبت بھی عجیب شے ہے کہ یہ کسی نہ کسی موڑ پر، کسی نہ کسی لمحے آگے آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’کبھی ہم دونوں ایک تھے‘‘ بس اس جملے کے بعد جسم کانپ جاتے ہیں، سر جھک جاتے ہیں، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل ہل کے رہ جاتے ہیں۔ محبت اتنا اثر رکھتی ہے کہ حکومتیں مجبور ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو بغض کے ہاتھوں قید کرتی پھرتی ہیں۔
پتہ نہیں بنگلہ دیش کی حکومت آئی سی سی کو کیا جواب دیتی ہے ادھر اقبال ظفر جھگڑا کو قریباً جواب ہی ہوگیا ہے۔ واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جھگڑا صاحب نے اپنی پوری زندگی مسلم لیگ ’ن‘ کے نام کردی مگر مسلم لیگ ’ن‘ انہیں عزت نام کی کوئی بھی چیز دینے سے قاصر رہی۔ اقبال ظفر جھگڑا بڑے سادہ اور شریف سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ’ن‘ لیگ کے دور ابتلا میں خوب نبھائی۔ اے آر ڈی کی پوری جدوجہد میں شامل رہے۔ اب جب مسلم لیگ ’ن‘ بڑی ’’بھاری‘‘ اکثریت سے جیت کر آئی تو پہلے قربانیاں دینے والے صدارتی منصب کی طرف دیکھتے رہے جب یہ منصب دہی پھلکیوں کی نذر ہوا تو بہت سوں کو ہوش آگیا۔ جھگڑا صاحب کا خیال تھا کہ ان کے علاوہ مسلم لیگ ’ن‘ کے پاس کوئی پختون نہیں ہے جبکہ گورنر شپ کے لئے پختون ہونا بڑا ضروری ہے ان کا یہ خیال بھی خاک آلودہ ہوگیا ہے۔ اب وہ ملتان سے آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئے ہیں،خدا انہیں صحت دے۔ یہی دُعا تہمینہ دولتانہ کے لئے ہے۔ دونوں شخصیات نوابزادہ نصراللہ مرحوم سے سبق لیتی رہی ہیں۔ اے آر ڈی میں کام کرنے والوں کو نوابزادہ صاحب نے بہت کچھ سکھایا، جو ان سے دور تھے وہ دوریوں کو جنم دے رہے ہیں۔ مخدوم امین فہیم اور مخدوم جاوید ہاشمی کو چاہئے کہ وہ اسپتال جا کر جھگڑا صاحب کی خیریت معلوم کریں، وزراء بہت مصروف ہیں ان کے پاس تو علی خان یوسف زئی کا فون نمبر بھی نہیں ہے کہ اقبال ظفر جھگڑا کے بارے میں معلوم ہی کرسکیں۔
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور جن میں دل ہوتا ہے وہ دل کی دُنیا کو آباد رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال پہلے ریٹائر ہونے والے ڈی آئی جی نثار سرویا نے آج کل اپنا مسکن حضرت میاں میرؒ کا مزار بنایا ہوا ہے۔ سرویا صاحب شروع ہی سے ایسے تھے اب وہ صبح شام حضرت میاں میرؒ کے مزار پر ذکر الہٰی میں مصروف رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ انہیں کہیں سے کہیں لے گئی ہے۔ اس سارے گورکھ دھندے میں پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ آخر میں آپ کے ادبی ذوق کے لئے ایک شعر ہی کافی ہے کہ
درگاہوں پر جھاڑو دینے والوں نے سمجھایا ہے
یارکے غم میں رونے والی آنکھ بڑا سرمایہ ہے