شیخ حسینہ کے ایک لفظ (رضاکار) نے اسے تخت سے بے تخت کردیا

August 06, 2024

کراچی (رفیق مانگٹ) شیخ حسینہ کے ایک لفظ نے اسے تخت سے بے تخت کردیا،14جولائی کو وزیر اعظم شیخ حسینہ نےاشتعال انگیز تقریرمیں مظاہرین کو’’رضاکار‘‘ کہا تھا،اس لفظ کو بنگالی غداری کے مترادف سمجھتے ہیں، یہ لفظ ان کےلئے استعمال کیا جاتاہے جنہوں نے1971میں پاک فوج کے ساتھ تعاون کیا،50 سال قبل شیخ مجیب نے ایک جماعتی حکومت قائم کی، بیٹی نے وہی غلطی دہرائی۔

رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک جبر کی لہر کو ختم کردیا۔

مظاہروں کا آغاز جولائی میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے کے لیے ہوا تھا۔

1971 میں فوجیوں کے لیے ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا۔

اس میں کئی بار ترمیم کی گئی، جس کے نتیجے میں سول سروس کی 30 فیصد ملازمتیں ان فوجیوں کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی گئیں۔ مزید 26 فیصد خواتین، پسماندہ اضلاع کے لوگوں، مقامی کمیونٹیز اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔صرف 44 فیصد ملازمتیں اوپن میرٹ پر تھیں ۔30لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان بیروزگار ہیں۔

کوٹہ سسٹم نے بے اطمینانی اور مایوسی کو جنم دیا ۔ مظاہرین نے پسماندہ اور کمزور طبقوں کے لیے مختص کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کیا۔طلبہ کا اعتراض تھاکہ’’ فریڈم فائٹرز‘‘ کی اولاد کیلئے کوٹہ غیر منصفانہ ہے اور اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کی آبادی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سول سروس کی ایک تہائی ملازمتیں ان لوگوں کیلئے مختص کی گئی اس پر 2013 اور 2018 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے ۔

حکومت کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا تاہم کامیابی اس وقت ناکامی میں بدل گئی جب 5 جون 2024 کو ہائی کورٹ نے حکومتی حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔

عدالتی فیصلے نے طلبہ برادری کے ردعمل کو اکسایا جس نے ملک کو جام کردیا۔

14 جولائی کو وزیر اعظم کی ایک اشتعال انگیز تقریر سے حالات بدل گئے جس میں مظاہرین کو’’رضاکار‘‘کے طور پر پیش کیا گیا یہ لفظ ان کےلئے استعمال کیا جاتاہے جنہوں نے مغربی پاکستان کی فوج کے ساتھ تعاون کیا۔اس لفظ کو بنگالی غداری کے مترادف سمجھتے ہیں۔