استنبول کے خود کش حملوں کا پس منظر؟

July 15, 2016

استنبول کے اتا ترک ایئرپورٹ پر ہونے والے خود کش حملے میں 45سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 239 زخمی ہوئے۔ترک صدر طیب اردگان نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن مئوقف اختیار کرے انہوں نے کہا کہ استنبول ائرپورٹ پر حملوں کا مقصد معصوم لوگوں کے خون اور تکلیف کے ذریعے ترکی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا ترکوں کے ساتھ کھڑا ہے وزیراعظم نواز شریف نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے اگرچہ کسی تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ترک وزیراعظم علی یلدرم نے کہا ہے کہ اتاترک ائرپورٹ پر حملوں کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شدت پسند تنظیم اسلامک سٹیٹ ان حملوں میں ملوث ہے، ان سے جب یہ کہا گیا کہ یہ حملے اسرائیل اور روس سے ازسر نواستوار کیے گئے تعلقات کا ردِعمل تو نہیں ہیں؟ ترک وزیراعظم کا مئوقف تھا کہ ایسا فوری ردِعمل ممکن نہیں ہو سکتا ایسے حملوں کیلئے منصوبہ بندی کافی مدت پہلے کی جاتی ہے۔
استنبول کے اتاترک ائیرپورٹ پر ہونے والے خود کش حملے ترکی میں دہشت گردی کا پہلا سانحہ ہے اور نہ ہی آخری۔ ان حملوں کا پس منظر جاننے کیلئے ہمیں موجودہ اردگان حکومت کی داخلی و خارجی پالیسیوں کو سمجھنا ہو گا اور یہ بھی کہ شام کا بحران ترکی پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟ پاکستان اور ترک عوام جس طرح باہم ایک دوسرے کیلئے اپنائیت اور خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں اسی طرح ہر دو ممالک کے حالات میں بھی مماثلت کے کئی پہلو ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی تخلیق جمہوری عمل سے ہوئی اور ہمارئے بابائے قوم ایک سیاسی و جمہوری آدمی تھے جنہوں نے انتخابی مراحل سے گزر کر یہ مملکتِ خداداد حاصل کی جبکہ ترکوں کے بابائے قوم ایک فوجی شخصیت تھے ۔یہ مصطفے کمال اتاترکؒ تھے جنہوں نے نہ صرف عالمی طاقتوں سے لڑ کر جدید ترکی کو آزادی دلوائی بلکہ گلے سڑے قدیمی نظام سے بھی ترکوں کی جان چھڑائی۔ اس طرح انہوں نے ما بعد ایک ماڈریٹ جمہوری سیاستدان ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ترک آئین کے سیکولر تشخص کو قائم و دائم رکھتے ہوئے عوامی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے ترک عوام میں موجود اس اچھی خاصی کھائی کو پاٹنے کی مقدور بھر کاوشیں کیں۔ انہوں نے نہ صرف ترک معیشت کو سنبھالا بلکہ اپنی قوم کو ہمہ جہتی تعمیرو ترقی پر گامزن کیا۔اپنے ترکی میں قیام کے دوران ہمیں بلاشبہ ایسے افراد سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا جو شخصی حیثیت میں اردگان کے ناقد ہیںاور ان کی شخصیت میں کسی ڈکٹیٹر کو محسوس کرتے ہوئے فیملی کے حوالوں سے کرپشن کے چارجز بھی عائد کرتے ہیں بالخصوص ترک مملکت کے کرد شہری ان کے متعلق خاصے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں کمالین سیکولر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اردگان ترکی کو اس کی ان فکری بنیادوں سے ہلا رہے ہیں جو گہرے تدبرسے استوار کی گئی تھیںان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی اندرونِ ملک انگلیاں اٹھانے والے موجود ہیں ایک طرف وہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے سخت مخالف ہونے کا تاثر دیتے ہیں لیکن دوسری طرف مسلم انتہا پسندی کیلئے نرم گوشہ رکھتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اخوان کی انتہا پسندی کو کبھی انتہا پسندی خیال نہیں کیا یہاں تک کہ مصری صدر السیسی کی مخالفت بھی مول لی بلکہ اس سے بڑھ کر حماس کی دہشت گردی بھی انہیں کبھی دکھائی نہیں دی۔ حماس نے الفتح اور اس کے قائد محمود عباس کی قیادت کو جس طرح چیلینج کیا بحیثیت فلسطینی صدر ان کے ساتھ جو غیر جمہوری و غیر آئینی رویہ اختیار کیا اس کی مذمت کرنے کی بجائے حماس کی مضبوطی کا کوئی موقع انہوں نے جانے نہیں دیا۔ کئی لوگ سوال اٹھاتے ہیں جو شخص حماس کی حمایت میں اس قدر پریشان ہے وہ اپنے ملک میں ہونے والے خودکش حملوں پر یہ نہ کہے کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن مئوقف کیوں اختیار نہیں کرتی۔ بشارلاسد اور اس کی ظالمانہ و آمرانہ حکومت سے ان کی بیزاری سر آنکھوں پر لیکن پالیسی کی یہ غلطی بہرحال موجود ہے کہ بشاردشمنی میں اس سے بھی بدتر لوگوں کو انہوں نے اس وقت تک سپورٹ دیے رکھی جب تک کہ امریکی کھل کر دولتِ اسلامیہ کے خلاف پھٹ نہیں پڑے۔ شاید آج بھی ان کے دل میں جتنی حقارت متشدد کردوں سے ہے شاید اتنی ISISسے نہیں ہو گی ۔ ایک وقت میں انہوں نے ان اسلامی انتہا پسندوں کو جو منہ لگایا ہے آج وہی استنبول میں ترک عوام کا منہ نوچ رہے ہیں۔بلاشبہ فی الوقت ہمارے ترک بھائیوں کو ہر دو اطراف سے دہشت کا سامنا ہے پچھلے دنوں بیاضت چوک کی پر رونق سٹرک پر پولیس کی گاڑی پر حملہ کرتے ہوئے درجن بھر بے گناہ انسان مار ڈالے گئے اس کے شواہدا گر کرد دہشت گردی کی طرف جاتے دکھائی دئیے تھے تو ماقبل آیا صوفیہ جیسے تاریخی سیاحتی مرکز پر ہونے والا حملہ سب پر واضح تھا اور اس کی ذمہ داری ’’دولت اسلامیہ‘‘ نے قبول بھی کی تھی ہماری نظر میں آغاز رمضان پر اردگان حکومت نے آیائے صوفیہ کی تاریخی حیثیت کی متعلق جو متنازع فیصلہ دیا ہے وہ قابلِ افسوس ہے یہ تو طے شدہ امور میں خرابی ڈالنے والی بات ہے اس کا فائدہ ترک عوام کو ہوا ہے نہ روا داری و مکالمے پر یقین رکھنے والے طبقات کو۔ جب دنیا پہلے ہی آپ کے رویے پر شاکی ہے آپ انہیں ثبوت فراہم کیوں کر رہے ہیں۔ آپ تسلیم کریں کہ آپ کے فیصلے غلطیوں سے مبراء نہیں ہوتے ابھی کل کی بات ہے جب آپ نے روسی پائلٹ کو مار گرایا تھا آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ نے اپنی خود مختیاری کے تخفظ میں ٹھیک کیا ہے اس پر معافی نہیں مانگیں گے لیکن بالآخر وقت نے آپ کو مجبور کر دیا کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ کھلے بندوں پوری عالمی برادری کے سامنے روس سے معافی مانگی بلکہ خون بہا کی ادائیگی پر بھی راضی ہوئے۔ اسرائیل کے ساتھ بھی روایتی ترک تعلقات جس سطح کے مثالی رہے ہیں وہ پوری مسلم ورلڈ کیلئے کسی اثاثے سے کم نہ تھے آپ نے اس حوالے سے بھی کسی خاص حکمت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ ہمیں خوشی ہے کہ اب آپ کی حکومت نے ان ہر دو سخت معاملات پر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کو درستی سے بدلا ہے مسلم ورلڈ بالعموم اور پاکستانی عوام بالخصوص اپنے ترک بھائیوں سے جو محبت و عقیدت رکھتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم ترکی کو امن و سلامتی کے ساتھ معتدل عالمی کردار ادا کرتے دیکھیں۔ استنبول، انقرہ اور دیگر ترک شہروں میں جو خون خرابہ ہو رہا ہے اور شامی مہاجرین جس طرح استنبول کے گلیوں محلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ترک قیادت ان مسائل سے سرخرو ہو کر نکلے پاکستانی عوام نے اتاترک ائیرپورٹ کے خودکش حملوں کو اسی دردمندی سے محسوس کیا ہے جیسے یہ لاہور یا اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔