معیشت کی بحالی یا صرف مہلت

April 10, 2014

وزیر اعظم نواز شریف نے یکم اپریل 2014ء کو کہا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسی روز دعویٰ کیا کہ مضبوط معیشت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت کی بحالی کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ یہ دعوے غیرحقیقت پسندانہ ہیں،چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1) جون 2014ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی کا حجم ہدف سے تقریباً 75؍ارب روپے کم رہنے کا خدشہ ہے۔
(2) موجودہ مالی سال میں بجٹ خسارے کو ہدف کے اندر رکھنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ خدشہ ہے کہ مرکز اور صوبے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے ٹیکسوں کی چوری روکنے کے بجائے ترقیاتی اخراجات میں 250؍ارب روپے تک کی کمی کرسکتے ہیں جس سے معیشت کی شرح نمو سست ہوگی اور روزگار کے کم مواقع میسر آئیں گے۔ وطن عزیز میں 25برس سے کم عمر کے افراد کی تعداد تقریباً 102ملین ہے جبکہ ہر سال تقریباً 20لاکھ افراد روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں جن میں سے تقریباً نصف کو ہی روزگار ملتا ہے۔
(3) ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی پاکستان سماجی شعبے میں خطے کے ملکوں کے مقابلے میں کم رقوم خرچ کررہا ہے جبکہ خطے کے ملکوں کے مقابلے میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو سست اور بجٹ خسارہ زیادہ رہے گا۔
(4) آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو درپیش خطرات کو کم کرنے کے لئے مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان میں بینکوں کے غیرصحت مند قرضوں کے حجم کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
(5) موجودہ حکومت نے اپنے انتخابی منشور سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے لوٹی ہوئی دولت اور ٹیکس چوری کی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے لیکن آئی ایم ایف نے اس پر رسماً صرف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ آئی ایم ایف پاکستان پر اس بات کے لئے دبائو نہیں ڈالتا کہ زرعی شعبے، جائیداد سیکٹر اور اسٹاک مارکیٹ کے کاروبار کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے لیکن اپنی اس شرط کو سختی سے نافذ کراتا ہے کہ بجلی و گیس کے نرخوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ کرکے 19کروڑ عوام کو نچوڑا جائے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں وفاقی بجٹ میں منظور شدہ کچھ ایسے فیصلے بھی واپس لئے ہیں جو طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کو صرف کسی حد تک ہی متاثر کرتے تھے۔ ان دونوں اقدامات سے آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام اور مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور کی بنیاد ہی منہدم ہوگئی ہے لیکن امریکی سفارش پر فنڈ نے قرضے کی قسط پاکستان کو ادا کردی ہے جبکہ ہمارے حکمران بدستور قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ منشور پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
(6) آئی ایم ایف پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے کر اس کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے۔ خدشہ ہے کہ اس غیر دانشمندانہ فیصلے سے آگے چل کر بھارت کو پاکستان کے زمینی راستے سے گزر کر افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری مل جائے گی۔ یہی امریکی ایجنڈا ہے جوکہ پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہوگا۔
(7) 31؍دسمبر 2013ء کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 3479 ملین ڈالر تھے جو 31؍مارچ 2014ء کو بڑھ کر 5365 ملین ڈالر ہوگئے یعنی اس مدت میں ان ذخائر میں صرف 1884 ملین ڈالرکا اضافہ ہوا جس میں سعودی عرب سے ملنے والا 1500 ملین ڈالرکا تحفہ بھی شامل ہے۔
(8) وزیر اعظم نوازشریف نے 29؍مارچ 2014ء کو پرعزم لہجے میں کہا کہ ہمارے لئے تعلیم صرف ترجیح کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کا مستقبل بھی تعلیم سے وابستہ ہے لیکن ان کی حکومت نے آنے والے برسوں کے لئے تعلیم کے لئے مختص کی جانے والی رقوم کے اہداف میں زبردست کٹوتی کردی ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مرکز اور چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ 2015ء تک تعلیم کی مد میں مجموعی ملکی پیداوار کا 7فیصد مختص کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2015ء کے بجائے 2018ء تک تعلیم کی مد میں 7فیصد کے بجائے 4فیصد مختص کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو پاکستان ’’پرائمری تعلیم سب کے لئے‘‘ کا ہدف 2015ء کے بجائے لڑکوں کے لئے 2050ء تک اور لڑکیوں کے لئے اس صدی کے آخر تک حاصل کرپائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا تھا کہ بیمار معیشت کی بحالی کے لئے ٹیکسوں کے ضمن میں جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے وہ طاقتور طبقوں کی مخالفت کے باوجود نافذ کی جائیں گی۔ حکومت نے ایک بھی ایسی بنیادی اصلاح کا نفاذ نہیں کیا البتہ قومی دولت لوٹنے والوں اور ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے نصف درجن ایسے اقدامات ضرور اٹھائے ہیں جو ان کے انتخابی منشور سے براہ راست متصادم ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ معیشت کی بحالی کا دعویٰ خود ان کے اپنے منشور کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ (الف) مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کو 18فیصد، بچتوں کی شرح کو 30فیصد اور مجموعی سرمایہ کاری کو 25فیصد تک لے جائے بغیر تیز رفتار اور پائیدار معاشی ترقی حاصل کی ہی نہیں جاسکتی۔ (ب) بیرونی قرضوں، تحفے تحائف و امداد پر انحصار بڑھانے، ٹیکسوں کی چوری کی عملاً حوصلہ افزائی کرنے، طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات دینے اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے منفعت بخش قومی اداروں یا ان کے حصص کو فروخت کرنا تباہی کا نسخہ ہے۔ سعودی عرب سے 1500 ملین ڈالر کا ’’تحفہ‘‘ ملنے سے معیشت کی مشکلات عارضی طور سے کچھ کم ہو گئی ہیں اور حکومت کو اپنے منشور کے مطابق اصلاحات نافذ کرنے کے لئے عارضی مہلت مل گئی ہے۔ اس مہلت کو معیشت کی بحالی قرار دینا دانشمندی نہیں۔ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مخالفت کی وجہ سے اگر یہ مہلت ضائع کردی گئی تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا اور آنے والے برسوں میں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔