بہاولپور سے خانقاہ شریف تک

April 11, 2014

بہاولپور ادبی کانفرنس میں بہت سے انکشافات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ رضا عابدی نے اعلان کیا کہ کتابت کے دروازے بند ہوگئے ہیں کہ کمپیوٹر نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ میں چونکی،کیا اس طرح یہ ہمارے وراثتی فن کو غائب ہوتے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔ مجھے لاہوری دروازے میں کاتبوں کی بیٹھک یاد آئی جہاں آج بھی غیرممالک کے لوگ اپنا نام یا بسم اللہ یا کچھ اور خوش خط لکھوانے کیلئے جاتے ہیں۔ آج بھی اخباروں میں سرخیاں لکھنے کیلئے کاتبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے بھی خطاطی، ہماری وراثت ہے۔ ایران میں موجود حکومت کے دور میں تو خطاطی کو اور بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔ ہمارے بچپن میں تختی پہ لکھنا اسلئے سکھایا جاتا تھا کہ لفظوں کی ترتیب صحیح طریقے پر بنانی آجائے۔ قلم لکڑی کا ہوتا تھا جو کبھی سرکنڈے سے بھی بنایا جاتا تھا۔ ہم لوگ اپنی تختیاں دھو کر ان پر ملتانی مٹی کا لیپ کرتے تھے۔ خوش خطی کے اس زمانے میں الگ نمبر ہوتے تھے۔ ادیب فاضل کے کورس میں پورا پرچہ ہوتا تھا جس میں خط شکستہ لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔معلوم نہیں اب کورس کیسا ہوتا ہے، جیسا بھی ہوتا ہو کتابت کو قطعی طور پر حذف کردینا بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ کمپیوٹر کی اپنی جگہ اہمیت اور ضرورت ہے ترقی یافتہ اور ترقی پسند قومیں نئی ایجادات کو قبول کرتی ہیں مگر اپنی وراثت کو فراموش نہیں کرتی ہیں۔یہ تین روزہ کانفرنس تھی جس کے اصل مہتمم نجیب جمال تھے۔ مجھے لگتا تھا جیسے لڑکی بیاہنے والی حالت نجیب کی ہو رہی تھی۔ کوئی واپس طلب کررہا ہے اور یہ شخص جسے نجیب جمال کہتے ہیں۔ وہ بہت ضبط و صبر کے ساتھ کام بھی کئے جاتا تھا اور جواب بھی دیئے جاتا تھا۔ ادھر چولستان میں قحط کی خبریں آرہی تھیں۔ ادھر پوری یونیورسٹی لگتی تھی کہ جیسے بہار یہیں اتری ہو۔ دراصل وائس چانسلر کو پھولوں سے عشق ہے۔ انہوں نے سو طرح کے گلاب اکٹھے کئے ہوئے ہیں اور ایسے باغ و بہار منظر نامے کے بیچوں بیچ یہ کانفرنس تھی جس میں گیارہ ممالک کے وفود شرکت کررہے تھے۔ ہمارے انتظار صاحب کی بڑی شامت تھی۔ ہر جلسہ گاہ چاہتی تھی کہ وہ صدارت کریں۔ سوتے جاگتے عالم میں انتظار صاحب نے حتی الامکان صدارتیں بھگتائیں آج کل دہشت گردی اور نسائیت ایسے موضوع ہیں جو ہر کانفرنس میں کسی نہ کسی طریقے سے زیربحث آتے ہیں۔ نسائیت کے موضوع پر گفتگو کرنے والی خواتین کو انتظار صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کے سالانہ تبصرے نہ پڑھا کریں بلکہ براہ راست تخلیقات پڑھا کریں تو بہت بہتر مضامین لکھ سکیں گی۔ابلاغ کے موضوع پر اصغر ندیم سید نے تو سارے چینلوں کے پول کھول دیئے۔ جن اخباروں کے چینل بھی ہیں۔ انکے تو خوب لتے لئے اور بتایا کہ کیسے ڈائجسٹوں پر بنی ہوئی ڈرامہ سیریل، کیسے خبریں بناکر اخباروں میں پیش کی جاتی ہیں۔ ان کی نوحہ گری میں سامعین بھی تالیاں بجاکر شامل تھے۔ پہلے خیال آیا کہ پرویز رشید کو یہ سب کچھ سننا چاہئے تھا پھر میں نے اس خیال کو فوراً جھٹک دیا کہ جو شخص اتنی شرافت کا مظاہرہ کرے کہ جانتے بوجھتے، حالات کو نہ سنوارے تو اس کو سنانے کا کیا فائدہ۔ وہ تو آج کل اس طرح شعر و ادب کے سیشن میں لگتا تھا کہ پہلے تو ادیب ترقی پسند تحریک سے آگے نہیں آتے تھے اور اب 1960ء کی جدید ادب کی تحریک پہ سب اٹکے ہوئے ہیں۔ ہرحال میں ظفر اقبال کے انداز تحریر کو بہت یاد کیا گیا۔ ہندوستان سے آئے ہوئے پروفیسر علی جاوید نے بہت کمال باتیں کیں۔ انہوں نے دہشت گردوں اور بی جے پی میں مماثلت دکھاتے ہوئے نوجوانوں کو دنیا میں خاص کر مسلم ممالک میں جس طرح دہشت گردی کو فروغ دیا جارہا ہے اس کو روکنا ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔ مشاعرے میں تو کمال ہوگیا۔ زبیر رضوی نے ایک گھنٹہ تک پڑھا۔ کتنے معصوم اور شریف سننے والے تھے۔ اسلئے مشاعرہ تین بجے رات کو ختم ہوا۔بس ایک بات جو کانفرنس میں نوجوانوں اور ہم لوگوں نے بھی محسوس کی، وہ تھی ڈائیلاگ کی کمی۔ مشکل یہ ہے کہ جتنے دانشور پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پروفیسر ہوتے ہیں۔ وہ سب لوگ گھنٹے بھر کا مقالہ لکھ کر لاتے ہیں۔ کتنا بھی کم کریں آدھا گھنٹہ تو لے جاتے ہیں پھر بحث مباحثے اور سوالات کا وقت نہیں رہتا ہے۔ بس یہی خامی ہر ایک کانفرنس میں رہ جاتی ہے۔ اسی کو تشنگی بھی کہتے ہیں۔ ایک مدت کے بعد بہاولپور یونیورسٹی میں کانفرنس ہوئی۔ نوجوانوں کو پہلی مرتبہ، سینئر ادیبوں کو دیکھنے، فوٹو گراف اور آٹو گراف لینے کا موقع ملا۔ البتہ گفتگو کا موقع نہیں ملا۔ اس تشنگی کو وائس چانسلر اور خود نجیب جمال نے بھی محسوس کیا۔ ویسے ہر کانفرنس میں ہر سیشن میں 9یا 10مقالے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ہزار چٹیں لکھ کر بھیجو کہ مختصر کرو مگر ہر مقالہ نگار کی خواہش ہوتی ہے کہ اتنی محنت سے لکھا ہوا مقالہ وہ کیوں نہ پڑھیں۔ بہاولپور جائو اور خانقاہ شریف، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے گھر نہ جائو۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اتنا خوبصورت لان اور اس میں عائشہ اور سہیل کی محبتیں، کمال لطف آیا۔ اس کو کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ یہ بھی ہوا کہ ہم نے بہاولپور میں کالعدم مذہبی تنظیموں کے دفاتر خوب زور شور سے چلتے دیکھے۔