میٹرک امتحانات اور تعلیمی دہشت گردی

April 13, 2014

وطن عزیز میں آسودہ حال جو دانشور و صحافی محض الفاظ کی رشوت گری سے وطنیت و ملیت کا جذبہ بیدار کرنے کو فرض خیال کر بیٹھے ہیں اور جتنا زور وہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ پر ان سے برعکس رائے رکھنے والے ہم وطنوں کیخلاف بروئے کار لاتے ہیں، اس کا عشرعشیر بھی اگر ان عوارض کے علاج میں کام میں لائیں جو ملک و ملت کو مانندِ سرطان چاٹ جاتے ہیں تو لاریب نظریہ پاکستان کی ’’عملی‘‘ تصویر آسمانِ جہاں پر جہانِ نو کی علامت بن کر تاباں نظر آجائے گی۔ ایک شعبے، تعلیم کو اگر بطور تمثیل سامنے رکھا جائے تو اس کے عارضے یعنی انحطاط سے کسی نظریئے کی آڑ لے کر بچا نہیں جاسکتا، تعلیمی انحطاط خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس منظر میں وہ تمام سیاسی، سماجی اور تہذیبی نااہلیاں کار فرما ہوتی ہیں جو کسی بھی سماج کو شرف انسانیت سے گرا دیتی ہیں۔اساتذہ بتاتے ہیں کہ طبقات یا طبقاتی منافرت یا تعلیمی انحطاط مجرد وجود نہیں رکھتے بلکہ ان کی تخلیق سماجی عمل اور ردعمل کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہ تمام عوامل طرز سیاست، بود و باش، استحصال اور طبقات آفریں معاشرے میں پیدا ہو کر رہتے ہیں، جہاں عدم مساوات پر مبنی نظام ہے وہاں تعلیم سے نفرت، جرائم سے محبت، معاشرتی فرائض سے بیگانگی بلکہ اپنی ذات سے بھی لاتعلقی دیکھنے میں آتی ہے۔ بیگانگی کے مرض کی شدید صورت یہ بھی ہے کہ نکتہ چینی اور تنقید دیگراں کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، ایک جاہل خود کو عالم اور دوسروں کو جاہل کہتا ہوا اور دوسروں پر تنقید سے انبساط ذات حاصل کرتا نظر آئے گا۔ ذاتی اعمال سے بیگانگی کا یہ دور معاشرے کے کامل انحطاط کا دور کہلاتا ہے۔ گویا ’’تعلیمی انحطاط‘‘ معاشرتی انحطاط سے علیحدہ نہیں بلکہ اس کا لازمی نتیجہ کہلاتا ہے۔ عوام کو جہالت و افلاس میں مبتلا رکھنا اور معاشی بنیادوں پر مخصوص طبقات کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کی سازش ایک ایسا سیاسی حربہ ہے جو کسی بھی استحصالی نظام کو قائم رکھنے کے سلسلے میں کیا جاتا رہا ہے۔ انگریزی میڈیم اسکول ہوں یا روحانی کلب ،یہ ادارے سفید فام بیورو کریسی کی تربیت گاہوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہاں کا طرز تعلیم اور مہنگی تعلیمی زندگی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ یہ ادارے غریب عوام کے ’’مقابل‘‘ محاذ کی حیثیت رکھتے ہیں اور طبقاتی بنیادوں پر عوام دشمن افسر شاہی تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔ طبقاتی منافرت کا دوسرا سماجی زاویہ یہ ہے کہ وہ سرکاری اسکول جہاں غریبوں کے بچے تعلیم کیلئے جاتے ہیں ان پر مسائل کا اس قدر انبار ہوتا ہے کہ وہ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ناکامی اور محرومی کی خندق میں جا گرتے ہیں، یوں یہ بچے کم عمری سے ہی چائے ہوٹلوں، تندوروں، گاڑیاں دھونے و دیگر کم اجرت والے مقامات پر جا پہنچتے ہیں، دوسری طرف اشرافیہ کی اولادیں ملک و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے بعد غریب زدہ ماحول میں پرورش پانے والوں پر تازیانہ حاکمیت کے ساتھ مسلط ہو جاتے ہیں۔ کیا مملکت خداداد پاکستان کا نقشہ امروز ہو بہو یہی مشہود نہیں!؟ بلکہ مزید طبقاتی درجہ بندیاں ملاحظہ فرمائیں، ایک زمانے تک صرف پوش نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے، سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم اتنی معیاری ضرور ہوتی تھی کہ بسا اوقات غریبوں کے بچے بھی اعلیٰ صلاحیتوں کے طفیل اشرافیہ کے بچوں کے کندھوں تک جا پہنچتے تھے لیکن یہ اشرافیہ کو قبول نہ ہوا اور ان سرکاری تعلیمی اداروں سے روح نکال کر ہی چھوڑا گیا۔ آج ایک طرف یہ سرکاری تعلیمی ادارے کھوکھلے پن سے دوچار ہیں تو دوسری طرف درجہ بندیاں یوں بڑھ گئی ہیں کہ جہاں مدارس میں دینی تعلیم کے نام پر مسلکی، فقہی تعلیم سے ازخود ایک نیا لیکن موثر طبقہ وجود میں اگیا ہے وہاں غریب علاقوں میں نام نہاد انگریزی میڈیم کے نام پر نجی اسکولوں کی یوں بہتات ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ندی، نالوں سے لے کر گنجان آبادی والی گلیوں میں تین تین چار چار کمروں تک میں یہ قائم ہیں، وہ ماحول جو حصول تعلیم کیلئے ناگزیر ہے یہاں نہ صرف مفقود ہے بلکہ بسا اوقات گٹھن سے بڑھ کر بیگانگی کی حدود کو جا چھو لیتا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں میٹرک کے امتحانات کے دوران حکومت سندھ نے جس لاتعلقی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کوئی مشکل نہیں کہ عوامی حکومت، تعلیم جیسے کلیدی شعبے میں کس قدر دلچسپی رکھتی ہے!! میٹرک بورڈ کی کوتاہیاں اپنی جگہ کہ بعض غریب علاقوں کے اسکولوں کے سینٹر دور افتادہ علاقوں میں قائم کر دیئے، جہاں کیلئے بچے صبح کی نماز پڑھ کر گھروں سے نکلتے ہیں اور تین چار منی بسیں تبدیل کرتے ہوئے دھکے کھاتے سر شام لوٹتے ہیں، یہ بچے کلفٹن و ڈیفنس کے پوش نجی اسکولوں کا جس طرح مقابلہ کریں گے اس کیلئے قائد اعظم ’’سیکولر تھے یا تھیو کریٹ‘‘ کے مباحثے میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں!! مؤقر روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کے سبب کراچی میں میٹرک کے امتحانات مسئلہ بن گئے ہیں نقل کا سلسلہ اور لوڈشیڈنگ جاری ہے، نہ رینجرز ہے نہ پولیس، جس کی وجہ سے مراکز پر سیکورٹی کی صورتحال مخدوش۔ خبر کے مطابق سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے عزیز گورنمنٹ اسکول کے طلبہ نے اپنے اسکول پر قبضہ کر کے ان 500طلبہ کو امتحان دینے سے محروم کر دیا جن کا یہ اسکول سینٹر پڑا تھا۔ وجہ اس اجمال کی یہ تھی کہ مذکورہ اسکول کے طلبہ کے ہیڈ ماسٹر نے بروقت امتحانی فارم جمع نہیں کرائے تھے یوں انہیں امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ملی تھی۔ اس احتجاج سے البتہ یہ ہوا کہ متاثرین کے فوری فارم جمع کرا کر انہیں امتحان میں شرکت کی اجازت دیدی گئی۔ یہ احتجاجی بچے بھی اپنے ملک میں یہ دیکھتے رہے ہوں گے کہ کس طرح ان کے سیاسی و دینی اکابر آئے روز سڑکیں بند کرا کے اپنی بات منوا لیتے ہیں لہٰذا کیوں نہ دوسروں کو تکلیف دینے کا یہ طریقہ اختیار کر لیا جائے!!خبر کے مطابق ناظم امتحانات نعمان احسان واحد سرکاری افسر تھے جو مسئلے کے حل تک تگ ودو کرتے رہے جبکہ حکومتی اختیار مند ان بچوں کو حالات کی ستم ظریفی کے حوالے کر کے خود یخ بستہ کمروں میں براجمان تھے۔ راقم کو کیماڑی ٹائون کچی آبادی کے ایک نجی اسکول"الف" کے بچوں نے بتایا کہ ان کا سینٹر اسکول" ب" میں پڑا تھا جبکہ ب والوں کا سینٹر ہمارے اسکول الف میں پڑا تھا، جب ہمارے اسکول نے سختی کی تو جواباً انہوں نے ہم پر یہاں تک سختی کی کہ پانی تک فراہم نہیں کیا یعنی جیسے یہ قبائلی علاقہ ہو کہ ’’بدلے‘‘ میں جب آپ نے ہمارے بچوں کو نقل کرنے نہیں دی تو اب آپ بھی سختی بھگتیں۔ پیسے لے کر ایسے اسکولوں میں نقل کرانے کے قصے تو عام ہیں۔ اب جب حکومت اپنی دنیا میں مست ہو تو میٹرک بورڈ کرے تو کیا کرے، ایسے میں اُس مافیا کو کس طرح قابو میں لایا جا سکے گا جو دہشت گردوں کی طرح کھلے عام قوم کے معماروں کا مستقبل تاریک کرنے میں مصروف ہے۔ البتہ ایک واقعہ جو خوشگوار ہے وہ یہ کہ عوامی جمہوری پارٹی کی جانب سے ’’تعلیمی انقلاب لانگ مارچ‘‘ ہوا جو سکھر، لاڑکانہ کے بعد حیدرآباد پہنچا، ان کا مطالبہ تھا کہ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ نظریہ پاکستان کے علمبردار وطن عزیز میں جاری تعلیمی دہشت گردی میں ملوث کاروباری مافیا کو بھی ’’مذاکرات‘‘ کی میز پر لائیں؟