حکومت اور فوج کے درمیان تنائو۔ نتیجہ کیا ہوگا؟

April 16, 2014

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے حکومت اور فوج کے درمیان تنائو کے حالیہ اعتراف کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں عسکری و سیاسی قیادت کے درمیان تنائو پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مزید کچھ تحریر کرنے سے قبل ہمیں آرمی چیف کی تقرری پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ زیر غور آیا تو وزیراعظم میاں نواز شریف یہ نہیں چاہتے تھے کہ ماضی کی طرح اُن سے کوئی غلطی ہو، اُن کے لئے اس بار آرمی چیف کی تقرری اس لئے بھی زیادہ اہمیت کی حامل تھی کیونکہ وہ ایسے آرمی چیف کی تلاش میں تھے جو اُن کے تمام فیصلوں کی حمایت و تائید کرے۔ ایسے میں اُن کی نظر جنرل راحیل شریف پر پڑی جو کورکمانڈر لاہور بھی رہ چکے تھے اور ایسے خاندان کے سپوت تھے جس نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنائے جانے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جنرل عبدالقادر بلوچ نے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے نواز شریف کو یہ باور کرایا کہ جنرل راحیل شریف فوج میں اُن کے ماتحت کام کرچکے ہیں اور وہ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں، اس لئے وہ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھیں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد نواز شریف نے راحیل شریف کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا اور اُنہیں یہ یقین ہوا کہ اگر پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا گیا تو فوج یا اس کا سربراہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا مگر شاید میاں نواز شریف فیصلہ کرتے وقت جنرل راحیل اور جنرل مشرف کے باہمی تعلقات سے آگاہ نہیں تھے۔ اُن پر یہ حقیقت بعد میں آشکار ہوئی کہ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید، جنرل مشرف کے بیج میٹ اور قریبی دوست تھے اور اُنہیں شبیر شریف کی والدہ نے اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ 71ء کی جنگ میں جب میجر شبیر شریف شہید ہوئے تو جنرل مشرف اُن کی والدہ سے تعزیت کے لئے گھر آئے جہاں ان کی ملاقات نوجوان راحیل شریف سے ہوئی جنہیں جنرل مشرف نے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ’’تمہارا بھائی شبیر شہید نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے اور میں آج سے تمہارا بڑا بھائی ہوں‘‘۔ اس طرح جنرل مشرف نے راحیل شریف کے فوجی کیریئر میں ہمیشہ اُن کی مدد کی اور بھائیوں جیسا سلوک روا رکھا۔ تاریخ نے نیا موڑ اس وقت لیا جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور جنرل مشرف جنہیں وہ بڑا بھائی سمجھتے تھے، کے خلاف غداری کیس کا آغاز ہوا اور پھر جنرل مشرف نے فوجی اسپتال میں پناہ لی۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق کچھ حلقوں کی جانب سے فوج کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مشرف پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد حکومت ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد نہیں کرے گی جس کے بعد جنرل مشرف کو عدالت میں پیش کیا گیا اور ان پر فرد جرم عائد ہوئی۔ ڈیل کے تحت اسی شام جنرل مشرف کو لینے کے لئے ایک خلیجی ملک نے اپنا طیارہ پاکستان بھیجا تاہم آخری لمحات میں صورت حال میں تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب وفاقی وزراء خواجہ آصف اور سعد رفیق کی جانب سے مشرف کو غدار اور مرد کا بچہ بننے جیسے طعنوں سے نوازا گیا اور یہ کہا گیا کہ فوج فرد واحد کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ملک کی حفاظت کے لئے ہے۔ یہ بیانات دلواکر تاثر دیا گیا کہ اگر جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف حکومت کی سبکی ہو گی بلکہ مقبولیت کا گراف بھی نیچے آجائے گا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ نواز شریف، چوہدری نثار اور ان کے قریبی رفقاء مشرف کیس کا منطقی انجام دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اگر وہ مشرف کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے تو مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر (ن) لیگ اپنے دور میں توانائی کے بحران اور امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ نہ صرف اپنی مدت پوری کرلے گی بلکہ آئندہ 10 سالوں تک انہیں حکومت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ پیپلزپارٹی اب صوبائی جماعت بن چکی ہے جبکہ عمران خان کی مقبولیت میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ حکومت کو فوج سے صرف یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ماضی کی طرح اقتدار پر قابض نہ ہو جائے۔ اس خطرے کے پیش نظر اگر حکومت، مشرف کو عدالتوں کے دھکے کھلا کر آرٹیکل 6 کے تحت سزا دلوانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف مستقبل میں مارشل لا کے امکانات دم توڑ جائیں گے بلکہ پھر کسی جنرل کی یہ ہمت نہ ہو گی کہ وہ جمہوری حکومت پر شب خون مار سکے تاہم حکومت کا پلان بی یہ بھی ہے کہ سزا پانے کے بعد جنرل مشرف کو صدر پاکستان ممنون حسین سے معافی دلوا کر اور جہاز میں بٹھاکر اُسی طرح سعودی عرب روانہ کردیا جائے جس طرح جنرل مشرف نے نواز شریف کو بھجوایا تھا۔
آخری وقت میں حکومت کی قلابازی اور فوج کے خلاف سخت بیانات نے حکومت اور فوج کے درمیان تنائو میں اضافہ کردیا ہے جس کے بعد آرمی چیف راحیل شریف کو اسپیشل سروسز گروپ کمانڈوز کے ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر یہ سخت بیان دینا پڑا کہ ’’فوج اپنے وقار کا دفاع کرنا جانتی ہے اور مسلح افواج کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ ان کے اس بیان سے یہ تاثر ابھرا کہ فوج جنرل مشرف کی پس پردہ حمایت کررہی ہے جو اُن کی مزید تذلیل نہیں چاہتی۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان تنائو کی ایک اور وجہ حکومت طالبان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں طالبان جنگجوئوں کی رہائی بھی ہے۔ اس حوالے سے فوج کا موقف ہے کہ انہوں نے قربانیاں دے کر جن طالبان جنگجوئوں کو گرفتار کیا تھا، حکومت انہیں رہا کر رہی ہے جو مستقبل میں فوج پر ہی دوبارہ ہتھیار اٹھائیں گے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ مشرف کے معاملے میں فوج میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ آرمی چیف کا بیان عسکری قیادت کی ناراضی کو ظاہر کرتا ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ فوج کی طرف سے ایسے بیانات معمول کا حصہ نہیں۔ ایسی سخت باتیں اُسی وقت کی جاتی ہیں جب فوج یہ محسوس کرے کہ اُسے دیوار سے لگایا جارہا ہے یا جی ایچ کیو اور ایوان وزیراعظم کے درمیان رابطے موثر نہ ہوں۔ یہ بات واضح ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت اس خوف سے کہ کہیں ماضی کی طرح اُن کی حکومت پر فوج قابض نہ ہوجائے، اسے کمزور کرنے کے درپے ہے مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس ادارے کو اتنا کمزور کردیں کہ فوج ملکی حفاظت کے قابل بھی نہ رہے۔ ہمیں صلاح الدین ایوبی کا یہ مشہور قول یاد رکھنا چاہئے کہ ’’کسی ملک کو تباہ کرنے کے لئے اگر اس ملک کی عوام میں فوج کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا جائے تو وہ ملک تباہ ہوجاتا ہے‘‘۔ پاکستان کو اس وقت انتہائی نازک صورت حال کا سامنا ہے اور پاکستان مزید کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔(ن) لیگ کی قیادت اگر یہ سوچتی ہے کہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ فوج کو ہمیشہ کے لئے سیاسی قیادت کے تابع کردے گا تو یہ ایک خام خیالی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اپنے وزراء کو فوج اور مشرف کے خلاف غیر ضروری بیانات دینے سے روکیں جبکہ جنرل مشرف اور اُن کے وکلاء کو بھی چاہئے کہ وہ بھی فوج کو مشرف کیس میں نہ گھسیٹیں۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سویلین اور عسکری ادارے اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنائیں کیونکہ مارشل لا کا راستہ صرف ایک اچھی حکمرانی اور عوام کے دل جیت کر ہی روکا جاسکتا ہے۔