سیاسی قوتیں کس طرح مضبوط ہوں گی ؟

April 20, 2014

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے اس بیان کے بعد کہ فوج اپنے وقار کا تحفظ کرے گی ، پورے ملک میں فوج اور حکومت کے مابین اختلافات کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان قیاس آرائیوں کو کسی بھی حلقے کی طرف سے ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ قیاس آرائیوں کے اس ماحول میں سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد جا کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ایوان وزیر اعظم میں ملاقات کی ہے ۔ اس ملاقات کو بھی اسی ماحول کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں یہ عہد کیا ہے کہ جمہوریت کے لئے وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کسی غیر آئینی اقدام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔ دونوں رہنماؤں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور سسٹم کو کسی صورت میں پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا ۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی صورت میں وہ غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق عدالت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مذکورہ بالا باتوں کو ایک نئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ ( Charter of Democracy ) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف کے بیان کے تناظر میں ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اس نئے ’’میثاق‘‘ کو دیکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی وجہ سے پاکستان میں کچھ مسائل پیدا ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی قوتیں کسی غیر آئینی اقدام کی توقع کر رہی ہیں اور کیا وہ اس قابل ہیں کہ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف مزاحمت کرسکیں؟
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں جمہوریت کے تحفظ کے لئے متحد ہیں۔ جماعت اسلامی کے نئے منتخب امیر سراج الحق صاحب کا کہنا بھی یہی ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے لیکن سیاسی قوتوں اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے اب بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قوتوں کے آپس کے اختلافات اور جمہوری اداروں کی کمزوریوں کی وجہ سے فوج کو بار بار مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت ’’ڈرائیونگ‘‘ سیٹ پر ہیں اس لئے ان پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ملک میں سیاسی قوتوں اور اداروں کو اگر مضبوط بنانا ہے تو غیر سیاسی قوتوں پر انحصار ختم کرنا ہو گا۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) اور دیگر لبرل اور روشن خیال سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو ہوا اور انہیں اپنے طاقتور سیاسی مخالفین کے مقابلے میں خالی میدان ملا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی اپنی عوامی رابطہ مہم نہیں چلا سکتی اور سیاسی جلسے منعقد نہیں کر سکتی ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان مسلم لیگ (ن) یا پاکستان تحریک انصاف کے لئے تو وقتی طور پر سازگار ہو سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس سے پاکستان کی سیاسی قوتیں کمزور ہو رہی ہیں۔ اس صورت حال میں غیر سیاسی اور انتہا پسند عناصر کے لئے گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ یہ عناصر بعد ازاں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ عناصر جس قدر مضبوط ہوں گے، اس قدر سیاسی قوتیں کمزور ہوں گی اور آمریت پسند قوتوں کے عزائم پورے ہوں گے۔ایسے عناصر کی موجودگی میں فوجی مداخلت یا غیر آئینی اقدام کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہی غیر سیاسی قوتوں کو اپنے مقاصد حاصل ہو جائیں گے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اگر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں مضبوط ہوں تو انہیں اس ’’ غیر سیاسی عامل (فیکٹر ) ‘‘ پر خصوصی توجہ دینا ہو گی، جو نہ صرف پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے بلکہ اس سے پاکستانی معاشرہ غیر سیاسی (Depoliticized) ہو رہا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ملک میں امن کی خاطر مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں لیکن طالبان سمیت دیگر انتہا پسند گروہوں کے ساتھ اسے مکمل سیاسی لاتعلقی کا اظہار کرنا ہو گا اور ان گروہوں سے ملنے والے سیاسی فائدے کو حقیقی معنوں میں ٹھکرانا ہو گا ۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت کو ایسا ماحول پیدا کرنا ہو گا جس میں پاکستان کے عوام ہی فیصلہ کن سیاسی قوت بن جائیں۔
پاکستان میں سیاسی قوتوں کو متحد اور مضبوط کرنے کے لئے داخلی سطح پر ہر طرح کے انتہا پسند عناصر کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ عناصر آمریت پسند اور غیر سیاسی قوتوں کے آلہ کار ہیں اور ان قوتوں کے عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔ دوسری طرف خارجی سطح پر بھی موجودہ وفاقی حکومت کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی، جن سے ملک میں سیاسی پولرائزیشن نہ ہو اور سیاسی قوتیں اور پاکستانی عوام تقسیم نہ ہوں۔ برادر ملکوں کے ساتھ پاکستان کے حالیہ دفاعی معاہدوں کی وجہ سے بعض شکوک و شبہات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ بعض حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کو ان ملکوں کے داخلی بحرانوں میں ملوث ہونے سے نہ صرف پاکستان مزید بحران کا شکار ہو گا بلکہ سیاسی اور سماجی پولرائزیشن بھی بڑھے گی ۔ کچھ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ پاکستان پہلی مرتبہ حقیقی فرقہ واریت کا میدان بن جائے گا۔اب تک پاکستان میں فرقہ واریت عوام کی سطح تک نہیں تھی بلکہ ’’نامعلوم‘‘ اور ’’غیر مرئی‘‘ قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ تھی لیکن پاکستان کے برادر ملکوں کی داخلی تنازعات میں الجھنے سے پاکستانی سماج بھی تضادات اور تصادم سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔ اس سے پاکستانی عوام اور سیاسی قوتوں کا اتحاد بھی کمزور ہو گا اور نتیجے میں انتہا پسند عناصر اور غیر سیاسی قوتیں مضبوط ہوں گی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی قوتیں متحد ہو کر کسی غیر آئینی اقدام کا مقابلہ کریں تو اسے ان دونوں معاملات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے میں عدلیہ آزادانہ ماحول میں اپنا فیصلہ سنائے تو اسے پاکستان میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور پاکستان کو دیگر ملکوں کے مناقشوں میں الجھنے سے احتراز کرنا ہو گا۔