دشمن کے انتخاب میں غلطی

April 22, 2014

وزیراعظم نے ممتاز صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کی اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سو اب اس معاملے کی واقعاتی تفصیلات اور مجرمانہ ذمہ داری کا تعین تو تحقیقاتی کمیشن کرے گا تاہم اس دوران تمدنی مکالمے اور ریاستی اداروں کی حرکیات کے سامنے آنے والے زاویوں پر بات کی جا سکتی ہے۔ حامد میر پر حملہ پاکستان کے ضمیر پر حملہ ہے۔ سوئے اتفاق کہنا چاہئے کہ پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کا سلسلہ صحافی ضمیر قریشی پر گولی چلائے جانے سے شروع ہوا تھا۔ حامد میر دبنگ اور باخبر صحافی ہیں۔ ربع صدی پہلے انہوں نے ضیاء آمریت کے آخری برسوں میں صحافت کا آغاز کیا۔ وہ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں جمہوریت کی بے بسی اور طالع آزمائوں کے جوڑ توڑ کے چشم دید گواہ ہیں۔ حامد میر دائیں بازو کی جانب رجحان رکھتے ہیں اور کٹر قوم پرست ہیں۔ پاکستان سے ان کی محبت غیر مشروط اور کسی شک و شبہے سے بالا ہے۔ صحافی اپنے پیشہ ورانہ تقاضوں کو پورا کرے تو اس سے کچھ جبینوں پر بل ضرور پڑتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی واٹر گیٹ اسکینڈل کی پرتیں اتاریں، کولمبیا کے منشیات فروشوں کا پردہ چاک کریں، سری لنکا میں خانہ جنگی کے دونوں طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راز کھولیں یا اندراگاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھائیں، مقتدر حلقے ان سے خوش تو نہیں ہوں گے۔ صحافت کا ایک پہلو خبر دینا ہے اور دوسرا خبر کا تجزیہ کرنا۔ خبر سے واقعاتی حقیقت اور غیر جانبداری کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف تجزیئے میں صحافی کی رائے ضرور شامل ہوتی ہے لیکن یہ رائے خبر سے آگہی کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ صحافت میں پیشہ ورانہ رائے کو عصبیت سے تعلق نہیں ہوتا۔ خبر اور تجزیئے کی یہ دو دھاری تلوار صحافی کے اپنے لہو میں نیام ہوتی ہے۔
حامد میر پر حملے کے بعد اہل صحافت کے ایک حصے کی طرف سے کچھ ریاستی اداروں پر الزام کی انگلی اٹھی تو دوسری طرف سے قومی مفاد کی دہائی دی گئی۔الزام کی حقیقت تو عدالتی تحقیقات کے بعد ہی سامنے آسکے گی لیکن اس سوال پر غور کرنا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ قومی مفاد کسے کہتے ہیں اور قومی مفاد کا تعین کرنے کا حق کسے حاصل ہے؟ نوآبادیاتی عہد میں غیر ملکی حکمرانوں کو اس دھرتی کے باسیوں پر حکومت چلانے کے لئے مقامی باشندوں کی حمایت درکار ہوتی تھی۔ مقامی مدد کے لئے خود کاشتہ جاگیردار طبقہ بھی موجود تھا لیکن غیر ملکی حکمرانوں کا اصل اور قابل اعتماد حلیف سرکاری اہلکار تھا۔ غیر ملکی غلامی میں ریاست اور حکومت میں حد فاصل نہیں ہوتی۔ آزادی پسند خود کو قوم کے تصور سے جوڑتے تھے اور سرکاری اہلکار انہیں شرپسند قرار دے کر تشدد کرتا تھا اور اس کے صلے میں وفاداری کی خلعت پاتا تھا۔ آزادی کا اصل مفہوم یہ تھا کہ حکمرانی قوم کو منتقل ہو جائے،حکومت عوام کی تائید سے قائم ہو، ریاست مستقل بالذات ہو، حکومت پر تنقید کا مطلب ریاست کی مخالفت نہ سمجھا جائے۔ یہ مثالی بندوبست جمہوریت ہی میں ممکن ہے۔ بھارت میں آزادی کے فوراً بعد حکومت میں آنے والے سیاسی رہنمائوں نے اپنی یادداشتوں میں ریاستی اہلکاروں اور سیاسی رہنمائوں کے مابین کشمکش کا ذکر کیا ہے۔ تعلیم یافتہ اور اصول ضابطے میں گندھے ہوئے ریاستی اہلکاروں کا پرہنگم اور کسی قدر غیر رسمی طریقہ کار کی حامل سیاسی قیادت کو حقیر سمجھنا فطری تھا۔ ریاستی اہلکار خود کو ریاستی مفادات کا بہتر محافظ گردانتے تھے۔ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوئیں تو کسی قدر ہچکچاہٹ کے بعد ارتقائی عمل میں ریاستی اہلکار نے سیکھ لیا کہ سیاسی قیادت پالیسی سازی میں حتمی اختیار رکھتی ہے۔ قومی مفاد کا تعین کسی دفتری اجلاس میں نہیں ہو سکتا۔ قومی مفاد عوام اور حکومت کے اجتماعی مکالمے سے متعین ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ جمہوریت سے ڈھل مل وابستگی نے نظریاتی دعوئوں کو جگہ دی۔ نظریاتی اساس مذہب کو قرار دیا گیا۔ مذہبی عقائد تو بحث کا مناسب موضوع نہیں ہوتے۔ سیاست نام ہی اختلاف رائے کا ہے چنانچہ سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو بیک وقت ریاستی نظریئے کے مخالف اور ملک دشمن قرار دیا گیا پھر مارشل لا کی نامبارک روایت چلی۔ مارشل لا درحقیقت حکومت اور ریاست کے فرق کو ختم کرتا ہے۔ فوجی آمریتوں میں بھی سرکاری اہلکار آلہ کار بنا۔ سیاسی اور تمدنی سطح پر اختلاف کرنے والی آوازوں کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1958ء سے 2008ء تک وقفے وقفے سے پچاس برس جاری رہا۔ جمہوری ریاست کا منصب معاشرے میں موجود مختلف نقطہ ہائے نظر کو پرامن مکالمے کی مدد سے مقابلے کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ ریاست کو کسی خاص نظرئیے سے منسلک کر لیا جائے تو پیوستہ مفادات کو کھل کھیلنے کے لئے آڑ میسر آجاتی ہے۔ یہ افراد اور گروہ تاریخ کے ہر موڑ پر احتیاط سے تراشے گئے مفروضات کا ایک پلندہ پیش کرتے ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پتھر کی ان سلوں کے سامنے سجدہ تعظیمی بجا لایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا محب وطن صرف وہی ہے جس نے قومی مفاد کے منظور شدہ نصاب کو تسلیم کر رکھا ہو۔ یہ بھی مان لیا مگر اس کا کیا کہئے کہ ہر وقفہ آمریت کے بعد ہم ماتھے سے پسینہ پونچھے بغیر اعلان کرتے ہیں کہ گزشتہ دور میں فلاں فلاں غلط فیصلوں کے باعث قوم کو بے حد نقصان پہنچااور نقصانات کی اس فہرست کو آمر کے لاشہ بے جان پہ ٹانک دیا جاتا ہے۔ اچھی عقل مندی ہے کہ آمر کو برا کہتے ہیں ، آمریت کو برا نہیں کہتے۔ واقعے کی مذمت کرتے ہیں، سوچ کو گلے سے لگاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف 90ء کی دہائی میں دو دو مرتبہ حکومت میں آئے۔ ہر مرتبہ انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ قومی سلامتی اور معیشت کی موجودہ صورت حال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قوم کو اصل خطرہ کن رویوں سے تھا۔
پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ قومی مفاد اور پیوستہ مفاد میں تمیز کی جائے۔ حال ہی میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹر کارلوٹاگال کی کتاب ’’غلط دشمن‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب امریکی حکومتوں پر بہت سی تنقید کے علاوہ پاکستان کے بارے میں بھی بہت ناقدانہ زاویئے لئے ہوئے ہے لیکن آپ کو اس کتاب سے صرف ایک جملہ سنانا مقصود ہے۔ کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں کچھ ریاستی اہلکاروں نے کارلوٹا گال کو ڈرایا دھمکایا ۔ جب یہ حضرات واپس جا رہے تھے تو کارلوٹا گال نے اپنے مترجم کے بارے میں دریافت کیا ۔ جواب ملا ’’وہ پاکستانی شہری ہے۔ ہم اس کے ساتھ جو چاہے کریں‘‘ ۔یہ جملہ پڑھ کر لکھنے والے کے ماتھے پر جو پسینہ آیا اس میں خوف سے زیادہ شرمندگی کا پہلو تھا۔ پاکستان کا شہری ہونا بے بسی کی دلیل تو نہیں۔ پاکستان کی ریاست کو تو پاکستان کے شہریوں کا محافظ ہونا چاہئے۔ پاکستان میں آنے والوں کو یہ احساس ملنا چاہئے کہ اس ملک کا شہری ہونا ایک اعزاز اور احساس تحفظ ہے۔سلیم شہزادپاکستانی صحافی تھے۔مئی 2011ء کے آخری ہفتے میں انہوں نے مہران نیول بیس کراچی پر حملے کے بعد ایک رپورٹ لکھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بحریہ میں نچلے درجے کے اہلکاروں میں شدت پسندوں نے روابط پیدا کر لئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ اگلی قسط میں فضائیہ میں اسی طرح کے روابط پر رپورٹ لکھیں گے۔ 29مئی 2011ء کو سلیم شہزاد پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ چند روز بعد ان کی لاش برآمد ہوئی۔ تب الزام لگایا گیا تھا کہ سلیم شہزاد کی موت کے ذمہ دار وہ حلقے تھے جنہیں دراصل صحافی کی دی ہوئی خبر کی روشنی میں پاکستان کے اصل دشمنوں کا تعاقب کرنا چاہئے تھا۔ سلیم شہزاد کی موت کے سوا سال بعد 16اگست 2012ء کو کامرہ ایئربیس پر حملہ ہو گیا۔ سلیم شہزاد کی موت کے ذمہ دار شاید کبھی سامنے نہ آسکیں لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ صحافی کی خبر درست تھی۔ ہم نے دشمن کی نشاندہی میں غلطی کی تھی۔ صحافی نہیں، پاکستان کو ہتھیاروں کے بل پہ یرغمالی بنانے والے دشمن تھے۔ صحافی تو منٹوکا وہ مزدور ہے جو خبر کی وزنی بوری اٹھا کر بھاگنا چاہتا ہے، گولیوں کی زد میں آجاتا ہے تو بوری نیچے رکھ کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اچھا صاحب، میری مزدوری دے دو … چار آنے۔