سوال کرنے والوں سے ڈرتے کیوں ہیں؟

July 22, 2016

ٹیلی وژن پر ایک چھ سالہ بچّے کو ایک گھنٹے تک بولتے شاید آپ نے بھی سنا ہو۔ اللہ اس کو زندگی دے، اس نے سیاستدانوں کے بارے میں صاف صاف کہا کہ میں کسی کے بارے میں رائے نہیں دوں گا کہ سب کے سب کرپٹ ہیں۔ پوچھا خود بھی سیاستدان بننے کا ارادہ نہیں ہے۔ اس نے کہا ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ پوچھا ’’اچھا بتائو ٹیلی وژن کے کون سے پروگرام دیکھتے ہو، کہا کوئی بھی نہیں۔ پوچھا ’’رمضان کے پروگراموں کے بارے میں کیا خیال ہے‘‘ جواب دیا ’’سب پیسے کمانے کا ذریعہ ہیں۔‘‘ پھر اس نے فیض صاحب کی نظم سنائی ’’جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو‘‘ اور مذہب سے متعلق جناب مودودی صاحب اور سید سلیمان ندوی کی جیسے تعریف کی واضح تھا کہ پڑھا ہوا بچّہ پروفیسر بول رہا ہے۔ انٹرویو سلیم صافی صاحب لے رہے تھے۔ وہ تو معصومیت سے سوال کر رہے تھے اور وہ ننھا پروفیسر اچک اچک کر سنجیدگی سے جواب دے رہا تھا۔
سوال کرنا کتنا مشکل ہے اور سوال کو سہہ جانا اور بھی مشکل ہے۔ وہ ہمارے نوجوان گلوکار شہزاد رائے نے اپنے گانے میں خوب نبھایا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اینکرز کو اگر کچھ سیکھنا ہے تو ان دونوں کے سوال کرنے کو اہمیت دینے کے ساتھ یہ بھی غور کریں کہ شاید کچھ لوگ ان کے بولنے کے طریقے سے کچھ سیکھ لیں۔ جیسے ضیا محی الدین کا بولنے کا طریقہ یا پھر طلعت حسین کے مکالمے کا طریقہ، مجھے یاد آتا ہے۔ خالدہ ریاست، عظمیٰ گیلانی کے بولنے کا طریقہ۔ ماضی کی طرف جائیں تو زیڈ اے بخاری اور ناصر کاظمی کے علاوہ اسلم اظہر کے انٹرویو کا طریقہ۔ یہ سب لوگ پڑھے لکھے تھے۔ کل میرے پاس ایک خوبصورت خاتون انٹرویو کرنے تشریف لائیں، پوچھا ’’آپ نے میری کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟‘‘ صاف گوئی سے بولیں، میں نے تو کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ یہ تو اب آپ انٹرویو میں بتائیں گی۔
پتہ چلا موصوفہ اب تک بہت سے انٹرویو کر چکی ہیں۔ شروع کرتی ہیں ’’اپنے بارے میں کچھ بتائیں‘‘ اور لوگ فر فر اپنی کامیابیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے موصوفہ سے کہا ’’یہ سامنے بک شیلف ہے، کچھ کتابیں خریدیں، جب پڑھ لیں اس کے بعد انٹرویو کرنے آ جایئے۔ بندہ پوچھے 55سال کی محنت کو، اس خاتون کے ہاتھوں ضائع کر دوں مگر دوسرے اصحاب جنہوں نے اب تک انٹرویو دیئے تھے شاید ان کو خاتون کی معصومانہ روش پر ترس آ گیا ہو گا۔ آپ کو بی بی سی کے ناشتہ پر انٹرویو کرنے والے ڈیوڈ فراسٹ جیسے حضرات کے نام یاد ہوں جن کو انٹرویو دے کر سیاستدان فخر محسوس کرتے تھے، جس طرح آج کل کرسینا امان پور ساری دنیا میں انٹرویو کرنے کیلئے مشہورہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں 6کروڑ بچّے اسکول نہیں جاتے ۔ جو اسکول جاتے بھی ہیں وہ پڑھتے نہیں، رٹّا لگاتے ہیں۔ کتاب میں کوئی صفحہ نکال کر پڑھنے کو دیں، وہ آپ کی طرف تکتے رہیں گے۔ وہ بھی مجبور ہیں۔ ایک کمرے کی کلاس میں پانچ کلاسوں کے بچّے اکٹھے بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ ظلم کی ایک اور بات یہ ہے کہ کتاب اردو میں ہوتی ہے اور بچّے اپنی علاقائی/قومی زبان میں وہ بھی تصاویر کو دیکھ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس ایک کمرے کے اسکول میں باتھ روم بھی نہیں ہوتا۔ اگر باتھ روم ہو بھی تو پانی نہیں ہوتا پھر تو وہ ساری تشہیر بے کار جاتی ہے کہ بچّوں سے کہا جائے کہ ہاتھ دھو کر کھانا کھائو۔ مشہور مصنف مشعل حو پورگو نے لکھا ہے کہ بچّوں کے گلے سے زبردستی نصیحتیں نہ اتاریں، وہ آپ کی جانب توجّہ دینا بند کر دیں گے۔
عراق کی انکوائری رپورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ عراق پہ حملہ کرنا بالکل غلط تھا۔ اس سے پورے مشرق وسطیٰ کا امن برباد ہو گیا ہے۔ ٹونی بلیئر جو اس وقت برطانیہ کے وزیراعظم تھےنے اپنی طرف سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی تمام غلطیوں کی ذمہ داری میں پوری طرح سے لیتا ہوں۔ کاش ہمارے ملک میں بھی کارگل کی ذمہ داری لے کر جنرل مشرف بھی معافی مانگ لیتے مگر یہ سوال تو آصف زرداری، عمران خان اور نواز شریف سب سے کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب ان سے سوال کرتے ہیں مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتے ۔ یا تو ہمت نہیں رکھتے یا پھر غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان تمام گومگو کی کیفیات کے باعث دنیا بھر میں ہمارا ساتھ دینے کو کوئی ملک تیار نہیں، جو چلا جاتا ہے اس کے بارے میں غلطیاں بتائی جاتی ہیں۔ میں آج کل پاکستان کی تہذیب و ثقافت کی 70سال کی تاریخ لکھ رہی ہوں۔ پھر میں نے سعید قریشی جو سیکرٹری فنانس رہے ہیں، ان کی لکھی کتاب کا پہلا صفحہ پڑھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی 7سالوں میں 7وزیراعظم بدلے گئے مگر ان میں سے ایک بھی کرپشن کی وجہ سے نہیں نکالا گیا تھا۔ سیاسی بے چینی کے باعث یہ اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
یاد کریں امریکہ بھی کہہ چکا ہے کہ ہم نے 1979میں افغانستان میں پاکستان کے مجاہدین کو آگے بڑھنے دیا پھر امریکہ اور پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی غلطی کی پھر جو ہوا، جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں، وہی مجاہدین دہشت گرد کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اللہ معاف کرے، اب امریکی، افغان فوج کی تربیت کر رہے ہیں پھر وہی جب ان کے اوپر چڑھ دوڑیں گے تو ٹونی بلیئر کی طرح کہیں گے، غلطی ہو گئی۔
غلطی تو دنیا سے اس وقت ہوئی جب ڈائناسور کی نسل تباہ ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ کیوں ہوا، تاریخ نے جواب دیاکہ موسم کی تبدیلی پر اس زمانے کے سیاستدان کیا سائنسدانوں نے بھی غور نہیں کیا تھا۔ گزشتہ دس سالوں سے موسم کی تبدیلیوں کا شور ہے اس لئے ہمارے ملک میں آدھے گھنٹے میں چار گھنٹوں کے برابر بارش کیوں ہو رہی ہے۔ عام لوگ غور کرتے ہیں، چترال میں مسجد اور پولیس اسٹیشن سمیت سب لوگ بہہ گئے۔ یہ سبب وہی ہے، یکدم بے تحاشا ابر کا پھٹنا مگر ہمارے ملک میں تو سوال کرنے والے کو امجد صابری کی طرح مار دیا جاتا ہے۔
میری دعا ہے میرا سوال کرنے والا بچّہ زیڈان یوں ہی سوال کرتا رہے۔ ہمارے انبیاء نے بھی کیا تھا سوال اور آئن اسٹائن نے بھی سوال کیا تھا۔ سوال کرنے والے اور بڑھیں گے تو دنیا میں مثبت فکر بڑھے گی۔