بنیادی سبب دہشت گردی ہے!

April 27, 2014

سینئر صحافی اور ’’جیو نیوز ‘‘کے اینکر حامد میر پر 19اپریل کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد پورے ملک میں جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی ہے، وہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اس ہیجانی کیفیت کو ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی سمیت دیگر سیکورٹی ادارے قابل احترام ہیں کیونکہ یہ ادارے پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں اور ملکی سلامتی کے ضامن ہیں۔ اسی طرح میڈیا بھی ایک ادارہ ہے، جسے پوری دنیا میں ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں جتنا آزاد اور طاقتور میڈیا ہوتا ہے، اس ملک کو اتنا ہی مہذب تصور کیا جاتا ہے۔ حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ان کے بھائی عامر میر نے غم واندوہ کی حالت میں حامد میر کے پہلے سے ظاہر کردہ خدشے کو جس طرح بیان کیا، اسے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اگرچہ کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ عامر میر کے بیان کو نشر کرنے سے قومی سلامتی کے ہمارے ایک اہم ادارے آئی ایس آئی پر غلط حرف آیا ہے تو دوسرے حلقے کی یہ بات بھی سن لینی چاہئے کہ ایک میڈیا گروپ کے خلاف کارروائی سے بھی پوری دنیا میں پاکستان کی نیک نامی نہیں ہو گی۔اس ہیجانی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے فریقین کو تدبر سے کام لینا ہوگا۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ایسی صورت حال سے دہشت گرد اور پاکستان کی دشمن قوتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔
پاکستان سے اگر دہشت گردی کو ختم نہیں کیا گیا تو بحیثیت قوم ایسے بحرانوں کا ہم شکار ہوتے رہیں گے اور اداروں کے مابین ٹکرائو کی تشویشناک صورت حال پیدا ہوتی رہے گی۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا بنیادی سبب بھی دہشت گردی ہی ہے۔ ریاستی اداروں ،سیاسی قوتوں ،میڈیا ہائوسز، صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو یہ بات سمجھنی ہو گی اور معاملے کو ٹھنڈا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر ہم نے قوم کو تقسیم کر دیا تو دہشت گرد ہمیں مزید الجھا کے رکھ دیں گے۔ وہ دہشت گردی کی مزید کارروائیاں کر کے صورت حال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اس تقسیم کو تیز کرسکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں اس طرح کا موقع فراہم نہ کریں۔ دہشت گرد آزاد گھومتے رہے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہوا تو پھر معاملات کو سنبھالنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال تو پیدا ہوگیا ہے کہ کیا دہشت گرد ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟ ریاستی اداروں کو اس سوال کا جواب دینا ہے ۔اب اس سے نجات ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کی انگلیاں حکومتی اور ریاستی اداروں کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو اس ملک میں محفوظ تصور نہیں کرتا ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ حامد میر کی جان بچ گئی لیکن پاکستان میں روزانہ درجنوں بے گناہ شہری دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہر ایک مقتول اور مظلوم کا مسئلہ میڈیا پر اس طرح نہیں اٹھایا جاتا ہے جس طرح حامد میر کا اٹھایا گیا ہے لیکن ہر ایک کا کیس اسی طرح اٹھانا چاہئے اور حامد میر کا ایشو اگر اٹھایا گیا ہے تو یہ بھی غلط نہیں کیا گیا۔زندگی سے بڑھ کرکوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت اور اداروں کے مابین تنائو کو ختم کرنے کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ملوث لوگوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے بے نقاب بھی کیا جائے اور انہیں سزا بھی دلوائی جائے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ رینجرز، فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور دیگر پیرا ملٹری فورسز، چاروں صوبوں کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بھی ان قربانیوں میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے سیکورٹی اداروں کے تمام لوگ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ اسی طرح میڈیا نے بھی نہ صرف دہشت گردوں بلکہ مافیاز کے خلاف جہاد کیا ہے۔ پاکستان اس وقت صحافیوں کے لئے دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ کئی صحافی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ انہوں نے حقائق عوام تک پہنچانے کے لئے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ان کی قربانیاں بھی قابل قدر ہیں۔ پاکستان کے عوام نے بھی دہشت گردی کا جتنا خراج ادا کیا ہے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ گزشتہ تین عشروں کے دوران ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد بے گناہ مارے گئے ہیں۔ پاکستان کا کوئی شہر ، قصبہ، گائوں یا دیہات ایسا نہیں ہے جہاں دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کی المناک داستانیں بکھری ہوئی نہ ہوں۔ اس ساری صورت حال میں اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومتوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے تو وہ حق بجانب ہے۔ جنگوں، نسلی، لسانی اور مذہبی فسادات میں بھی اتنے لوگ نہیں مرتے ہوں گے، جتنے پاکستان میں ’’نامعلوم قاتلوں‘‘ نے مارے ہیں۔ اگر دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کے عوام کا ریاستی اداروں اور حکومتوں پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔ لوگ اب یہ بات اپنے ذہنوں میں بٹھا چکے ہیں کہ انہیں تحفظ فراہم کرنے والا کوئی نہیں ہے اور ملک کی حکمران اشرافیہ کے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے اس ملک کو ایک منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارا قومی میڈیا بھی اپنی بلوغت کی منزل تک نہیں پہنچا ہے اور اس سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ بعض حلقوں کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ غلطیاں دیگر اداروں سے بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم ایک دوسرے کی اصلاح کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور نہ صرف دوسروں کی غلطیوں کی تدبر کے ساتھ نشاندہی کرنی چاہئے بلکہ اپنی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنا چاہئے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بن سکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے ہمارے ادارے ’’ایک پیج‘‘ پر نہیں ہیں۔ ہمیں افہام و تفہیم سے کام لینا ہو گا۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہو گا اور پوری دنیا میں طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی ریاست کو چلانا ہو گا۔ پاکستان اب مزید انتشار ، افراتفری اور انارکی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ افہام وتفہیم کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب افراد، گروہ اور ادارے اپنی انا سے بلند ہوکر سوچیں ۔اگر ہم نے دہشت گردی پر کنٹرول نہ کیا تو ہم کبھی بھی افہام وتفہیم اور تدبر کی راہ پر نہیں آسکیں گے۔