پختہ زناری ا ور تخریب کاری

May 07, 2014

بہت گھٹیا اور جاہل قسم کے لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کہنے والے نے ان کی موافقت میں بات کہی ہے یا ان کی مخالفت میں، جبکہ وہ موافق کو دوست گردانتے اور نوازتے ہیں اور مخالف کے دشمن بن جاتے ہیں مگر بلند حوصلہ اور عالی ظرف لوگ موافقت اور مخالفت کی پروا کئے بغیر اپنا مدعا ظاہر کر دیتے ہیں وہ اختلاف اور موافقت سے اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں وہ اصل بات کو دیکھتے ہیں نہ کہ یہ جو کہا گیا ہے وہ ان کے موافق ہے یا ان کے خلاف اور جس نے یہ سب کچھ کہا ہے وہ صاحب اقتدار ہے یا محض مجبور و مقہور۔ اس بات کو اعلیٰ اقدار، اعلیٰ ظرفی و حسن کردار کہتے ہیں۔ آج جب کہ اقدار کا نہیں اقتدار کا دور ہے۔ خلوص کا نہیں خلوص کے اظہار کازمانہ ہے۔ آیئے آپ کو ان مٹتی ہوئی اقدار کی چند مثالوں سے روشناس کرائوں کہ میں خود بھی ایسی ہی اقدار پر عمل پیرا ہوں۔ دور نبوی کے بعد اسلام میں بہت سے دور رہے ہیں دور خلافت راشدہ، دور بنی امیہ، دور عباسیہ، دور فاطمیہ، دور عثمانیہ، دور سلجوقیہ، دور خلجیہ، دور غزنویہ اور دور مغلیہ وغیرہ۔ یہ واقعہ دور عباسیہ کا ہے۔
خلیفہ منصور عباسی نے ایک روز شام کے اعراب کی ایک جماعت کے سامنے تقریر کی۔ اس نے کہا ’’اے لوگو! تم کو چاہئے کہ تم میرے جیسے خلیفہ کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ جب سے میں خلیفہ بنا ہوں اللہ نے تم پر سے طاعون دور کردیا ہے‘‘۔ اس کے بعد سننے والوں میں سے ایک نے کہا ’’اللہ اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ ایک وقت میں ہمارے اوپر طاعون اور منصور دونوں کو جمع کردے‘‘۔ اعرابی کا یہ جملہ سخت توہین آمیز تھا۔ عام طریقہ کے مطابق چاہئے تھا کہ خلیفہ منصور بن عباسی اس کو سن کر بھڑک اٹھے اور مذکورہ شخص کے قتل کا حکم دے دے مگر خلیفہ منصور نہایت بلند حوصلہ آدمی تھا اس نے اعرابی کے جملہ میں گستاخی کا پہلو دیکھنے کے بجائے جرأت اور ذہانت کے پہلو کو دیکھا، اس نے اس کی قدر کی اور حکم دیا، اس شخص کو خزانہ خاص سے انعام دیا جائے اور اس کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ دوسری مثال آج کے زمانے کی ہے ۔ فوج کا ایک افسر اعلیٰ کسی رجمنٹ کا معائنہ کررہا تھا گھومتے گھومتے وہ ایک لیفٹننٹ کے پاس پہنچا دوران معائنہ اس نے دیکھا کہ اس کی وردی میں ایک بڑا نقص ہے۔ افسر اعلیٰ نے لیفٹننٹ کو سختی سے ڈانٹا۔ قریب تھا کہ منہ سے جھاگ اڑاتا افسر کچھ اور کہتا کہ نوجوان لیفٹینی جذبات سے مغلوب ہوگیا اس نے پستول نکالا اور افسر اعلیٰ پر فائر کرناچاہا لیکن پستول نہ چلا۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے افسر نے اسی وقت حکم دیا کہ لیفٹننٹ کو ایک ہفتے تک کوارٹر گارڈ میں رکھا جائے کہ اس کا پستول صحیح حالت میں نہ تھا۔ ایک اور واقعہ سنئے۔ ہمارے ہمسائے بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے پولیس کے چیف سے کہا کہ انگریزوں کے دور میں ان کے خلاف جو فائل تیار کی گئی تھی وہ انہیں دکھائی جائے۔ کافی دنوں کے بعد جب پولیس چیف نے پنڈت نہرو کے حکم کی تعمیل نہ کی تو انہوں نے دوبارہ پولیس چیف کو طلب کیا ’’تم نے کوئی وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟‘‘ پنڈت جی نے کہا۔ جناب ہم وہ فائل تلاش کررہے ہیں۔ چیف نے جواب دیا۔ وزیراعظم ہند نے ذرا تلخی سے پوچھا آخر فائل کہاں چلی گئی،مل کیوں نہیں رہی؟ پولیس چیف نے جواب دیا ’’سر، پولیس کی فائلیں سیاسی لوگوں کے خلاف ہوتی ہیں اور خلاف ہی رہتی ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ جب لوگ نیچے چلے جاتے ہیں تو فائلیں اوپر آجاتی ہیں اور جب لوگ اوپر آجاتے ہیں تو فائلیں نیچے چلی جاتی ہیں‘‘۔ پنڈت نہرو مسکرا کر رہ گئے۔اب ایک حالیہ واقعہ سنئے۔ مندرجہ بالا واقعات گزشتہ دنوں ایک ڈچ ٹی وی پروگرام دیکھتے ہوئے مجھے یاد آئے۔ یہ حالیہ واقعہ اور ڈچ ٹی وی پروگرام یہ تھا کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک سٹرا جن دنوں ہوم سیکرٹری تھے ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے جیک سٹرا نے بتایاکہ 1970ء کے عشرے میں انہیں ایک سیاسی تخریب کار سمجھا جاتا تھا اس وقت وہ نیشنل اسٹوڈنٹس کے صدر تھے اور ایم آئی فائیو نے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک فائل بنا رکھی تھی اور آج جب وہ ہوم سیکرٹری ہیں اور ایک باختیار عہدے پر فائز ہیں انہوں نے محکمہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے دور تخریب کی فائلیں نہیں دیکھنا چاہتے کہ ایسا کرنا بطور ہوم سیکرٹری اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانا ہے۔ انہوں نے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ جیسا ایک عام شہری کو اس کا حق حاصل نہیں ہے ویسا ہی انہیں بھی اس فائل کو دیکھنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نہ صرف انہیں تخریب کار سمجھا جاتا تھا بلکہ ان کی ڈاک سنسر کی جاتی تھی اور ٹیلیفون ٹیپ کئے جاتے تھے اور کہیں آنے جانے پر سفید کپڑوں میں پولیس ان کا پیچھا کرتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ میرے حساب سے ان سب باتوں کے جواب میں ہوم سیکرٹری یعنی سابق وزیر خارجہ کا اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی ہی برطانوی معاشرے کی اعلیٰ اقدار کا پتہ دیتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر واقعہ کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ منفی پہلو آدمی کے اندر صرف تخریبی نفسیات کو جگاتا ہے اور مثبت پہلو اس کے اندر تعمیری نفسیات کو جگا کر اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے لئے بھی کارآمد بن سکے اور دوسروں کے لئے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بڑا کام وہی لوگ کرتے ہیں جو واقعات کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تخریب کس کو کہتے ہیں اور تعمیر کیا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔