غیرت کا قتل اور نیا قانون

July 25, 2016

ملک میں غیرت کے نام پر کی جانے والی قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا کسی مصالحت یا عذر کی بنا پر بچ نکلنے کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک بڑھتی ہوئی تشویش کے باعث حکومت اس حوالے سے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ترامیم کے ذریعے اس نوع کے قتل کو فساد فی الارض قرار دے کر ایک نیا قانون بنانے کی تیاری کررہی ہے جس کے تحت اس جرم میں ملوث افراد کو25سال قید کی سزا دی جاسکے گی اور اس پر عیدین اور دیگر تہواروں پر قیدیوں کو دی جانے والی تخفیف کا بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ جنسی زیادتی کے قوانین میں 7ترامیم کرنے کی تجویز ہے جن کی روشنی میں متاثرہ خاتون کا24گھنٹے میں طبی معائنہ ہوگا، شواہد خراب کرنے پر حکام کوتین سال کی قید ہوگی کیونکہ عام طور پولیس ایسے مقدمات کی فوری ایف آئی آر درج کرنے سے گریز پائی اختیارکرتی ہے اورعدالت ایسے مقدمات کا چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔ان مقدمات کی ساری کارروائی ان کیمرہ ہوگی ۔ وطن عزیز پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے جرائممیں اضافہ ہورہا ہے اور انفرادی طور پر کی جانے والی اس طرح کی وارداتوں کے علاوہ برادریوں اور قبائلی جرگوں کے ذریعے قتل ناحق کا یہ سلسلہ فروغ پارہا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اکیسویں صدی کے جدید ترین دو ر میں بھی قرون وسطیٰ کے تاریک عہد کی طرف واپس لوٹ رہا ہے ، غیرت کے نام پر کئے جانے والے ان قتلوں کے اصل محرکات اکثر اوقات کچھ اور ہوتے ہیں لیکن انہیں قتل غیرت کا نام دے کر چھپایا جاتا ہے۔ حکومت نے انسانی حقوق کی اس پامالی کو روکنے کے لئے جو نیا قانون بنانے کا ارادہ کیا ہے وہ وقت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے جس کو ماہرین قانون ، سماجی دانشوروں اور علمائے کرام کی مشاورت سے جلد از جلد آخری شکل دی جانی چاہئے تاکہ اس قبیح رسم کا معاشرے سے مکمل خاتمہ کیا جاسکےاور پاکستان عالمی برادری میں اپنا سر فخر سے بلند کرنے کے قابل ہوسکے۔