دل : آخر اس درد کی دوا کیا ہے

May 14, 2014

لوگ اس قدر زیادہ تعداد میں اچانک دل کے حملوں کا شکار کیوں ہورہے ہیں؟اندازہ ہے کہ صرف برطانیہ میں ہرسال ایک لاکھ سے زائد افراد حرکت قلب کے بند ہونے سے ہلاک ہوجاتے ہیں اس حملۂ مرض میں دل کی رفتار بے قابو اور بے ہنگم ہوجاتی ہے ۔ دھڑکن کی رفتار فی منٹ 500تک جا پہنچتی ہے اور جسم کو خون کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے طبی امداد بہم پہنچنے کی صورت میں عموماً بجلی کاشاک دے کر دل کے عمل کو رکنے نہیں دیا جاتا۔ ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد کا سوال آج کل ڈاکٹروں اور ماہرین قلب کی توجہ کا پھر مرکز بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں سینٹ جارج اسپتال میڈیکل اسکول لندن کے پروفیسر آئندہ تین سال تک 35 سے 65 سال کی عمر کے درمیان حرکت قلب بند ہو جانے والوں کے دلوں کا بہت تفصیل سے معائنہ کریں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دل کے دورے کے سبب ہونے والی اچانک موت کے کیا اسباب ہیں؟ ان تحقیقات کو برطانوی میڈیکل ریسرچ کونسل کا تعاون بھی حاصل ہے اور ان کا نقطہ آغاز یہ علم ہے کہ زیادہ تر اموات دل کے عضلات میں خون کی کمی کی وجہ سے واقع ہوئی تھیں لیکن محققین کے پاس اس سلسلے میں معلومات نہایت محدود ہیں کہ خون کی مخصوص ’’گرہ‘‘ یا رکاؤٹ کس جگہ شروع ہوئی، اس ساری تحقیقات کا مقصد صرف یہ جاننا نہیں ہوگا کہ دل کے کون سے حصے میں عام طور پر خون کی گرہیں بننے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ یہ معلوم کرنا بھی مقصود ہے کہ عمر، جنس، تمباکو نوشی کی عادات اور دل کے مہلک دورے کے دورانیے اور خون کی مخصوص گرہوں یا لوتھڑوں کے درمیان کوئی مشترکہ شے بھی ہے یا نہیں؟ اس تحقیق سے یہ معلومات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ دل کے عضلات میں جو شریانیں کسی رکاؤٹ کی وجہ سے یا تنگ ہونے سے متاثر ہو گئی ہیں ان کی کیا اور کتنی شدت ہے اور یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ دل میں کتنی جگہ مردہ ٹیشو بن جاتے ہیں۔متاثر افراد کے مختلف گروپوں سے ملنے والی معلومات کا تقابلی جائزہ لے کردیکھا جائے گا کہ کیا کوئی خاص طرز پائی جاتی ہے ورنہ عام طور پر یہ تعین کیا جاتا ہے کہ دل کے عضلات کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے دل کی شریانیں زیادہ موٹی (یعنی تنگ) اور سخت ہوتی ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جن کو دل کی کوئی بیماری نہ ہو حرکت قلب کے ان خطرات کو روکنے کیلئے جہاں سائنس دان ڈاکٹر اور ماہرین قلب نے بہت سے پروجیکٹس پر کام شروع کیا ہوا ہے وہاں حال ہی میں ہالینڈ کے سائنس دانوں نے ایک چھوٹا سا برقی آلہ ’’کک اسٹارٹ‘‘ کے نام سے ایجاد کیا ہے اس کو ہنسلی کی ہڈی کے نیچے کھال کاٹ کر نصب کردیا جاتا ہے اور اس سے نکلا ایک تار قلب کے اندر دیا جاتا ہے آلہ میں لگی بیڑیاں برقی جھٹکا فراہم کرتی ہیں دل جوں ہی ڈانوں ڈول ہوکر ڈگمگانے لگتا ہے اسے فوری طور پر رواں دواں رکھنے کیلئے آلہ سے بجلی کی رو خارج ہوتی ہے جو دل کی دھڑکنوں کو روکنے یا بے قابو نہیں ہونے دیتی اس طرح اس ’’کک اسٹارٹ‘‘ سے دل کو جو کک لگتی ہے وہ دل کی رفتار کو اعتدال میں لے آتی ہے، دیا سلائی کے سائز کا یہ چھوٹا سا آلہ وہی کام کرتا ہے جو اسپتال میں اس مقصد کیلئے استعمال ہونے والی مشین کرتی ہے تیاری کی ابتدائی مراحل ہی میں یہ آلہ بہت کامیاب ثابت ہوا ہے اور اس کی افادیت سے کسی بھی ماہر قلب کو اختلاف نہیں ہے چنانچہ اس پر مزید تجربات کا سلسلہ روک کر اس کی تیاری اور فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے دواؤں کے مقابلے میں اس آلہ نے اب تک کئی جانیں بچائی ہیں اور اس کے نتائج ماہرین نے بہترین قراردیئے ہیں۔
امراض قلب کے شکار وہ افراد بھی ہوتے ہیں جن کے دل میں پیدائشی خرابیاں یا رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں ایسے مریضوں کے قلب میں اس آلہ کی تنصیب سے ان کی ناگہانی موت کے امکانات تقریباً ختم ہو جائیں گے اس کا طریقہ کار بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ ویسا ہی ہے جو کہ عام طور پر ہارٹ اٹیک کے مریض کیلئے ایجاد کیا گیا ہے اس چھوٹے سے جنریٹر سے نکلنے والے تار کو شریان کے راستے قلب کے ایک چیمبر میں پہنچا دیا جاتا ہے جوتیز رفتار دل کوفوری طور پرایک برقی جھٹکے سے قابو میں لے آتا ہے اور اس طرح اس کی رفتار متوازن اور معمول کے مطابق ہوجاتی ہے۔ ماہرین قلب کی رائے میں دل کی بیماریوں کے شکار افراد چلتے پھرتے حملے کاشکار ہوں توان کے بچنے کے امکانات محض پانچ فیصد ہوتے ہیں لیکن یہ آلہ لگوانے کی صورت میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی، فی الحال یہ آلہ بہت مہنگا ہے ایک عام آدمی کی اس تک رسائی نہیں لیکن ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کے محاورے کے مطابق لوگ کسی نہ کسی طرح اسے حاصل کرلیں گے۔ واضح رہے کہ پندرہ ہزار پونڈ کا یہ آلہ قلب کی رفتار باقاعدہ رکھنے والے آلے ’’پیس میکر‘‘ قلب کو برقی جھٹکا نہیں دیتا… آج کا لطیفہ کچھ یوں ہے۔ ایک امیرعورت اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھی ’’میرے شوہر دل کے مریض ہیں، مجھے تو ساری رات جاگنا پڑتا ہے‘‘۔
’’آپ ساری رات جاگنے کے بجائے ایک نرس کیوں نہیں رکھ لیتں‘‘۔ پڑوسن نے پوچھا’’نرس ہے… تبھی تو مجھے ساری رات جاگنا پڑتا ہے‘‘… وہ بولی۔