اصل میں دونوں ایک ہیں

July 27, 2016

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کتنی سنجیدہ ہے یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ۔دہشت گردی کی جنگ میںساٹھ ستر ہزار پاکستانی شہید ہوچکے ہیں اور یہ خبرچاروں طرف پھیلی ہوئی ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے لئے حکومت سے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی رقم مانگی گئی ہے اور حکومت نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دس کروڑ نوے لاکھ روپے کی خطیربمعنی حقیر رقم فراہم کر دی ۔یقیناًدہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے حکومت کو امن کا نوبل پرائز ملنا چاہئے ۔اتنی بڑی رقم ۔بس اِس سے چار گنا زیادہ رقم پچھلے دنوںنواز شریف اور ان کی فیملی کے پاس تشریف لانے پر خرچ ہوگئی تھی۔یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ بات میں نے نہیں نیکٹاکے کوآرڈنیٹر احسان غنی نے کہی ہے۔انہوں نے مغربی میڈیاکو بتایا ہے کہ نیکٹا نے دہشت گردوں کو فنڈ فراہم کرنے والے 126اکائونٹ بندکیے ہیں اور ان اکائونٹس سے تقریباًایک ارب سے زائد کی رقم ضبط کی گئی ہے مگر وہ بھی نیکٹا کے حصے میں نہیں آسکی۔اطلاعات ہیں کہ نیکٹا انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ کے لئے 251افراد بھرتی کرنے جا رہا ہے اور جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کےگروپ میں 53 لوگ شامل ہیں جو شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے اپنے تجزئیے اور سفارشات مرتب کریں گے ۔ مگر دس کروڑ ۔اور پورے ملک سے دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے کا کام ۔اللہ اللہ
احسان غنی نے کچھ اور بھی اچھی اچھی باتیں بھی کی ہیںمثال کے طور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ایک لاکھ کے قریب لوگ گرفتار ہوئے جن میں پانچ ہزار واقعی دہشت گرد تھے۔تقریباً اٹھارہ سو دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔چار سو گیارہ افراد کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔ شر انگیز تقاریر اورنفرت خیز میٹریل کی اشاعت و تقسیم کے جرم میں دوہزار تین سو افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
مغربی میڈیانے اس خبر کو منفی انداز میں پیش کیا ہے۔ مغربی میڈیا کے بارے میں میری رائے تو کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ پتہ نہیںپاکستانی قوم اس پر کیوں اعتبار کرتی ہے؟ ۔مجھے یاد ہے 1965کی ایک توپوں کے گولوں سے کھڑکیوں کی طرح بجتی ہوئی صبح تھی جب مغربی میڈیانے کہا تھا بھارتی فوجیں لاہور میں داخل ہو گئی ہیں،اور پاکستانیوں کی پُر اعتبار سماعتیں بے اعتباری کی دراڑوںسے بھر گئی تھیں۔دراڑوں کے زخم بھر جانے کیلئے اکتالیس سال بہت ہوتے ہیںمگر زخموں کے داغ تو سروں کے ساتھ جایا کرتے ہیںسو جب بھی ایسی خبریں میری آنکھوں میں اُتریں کہ وہی زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔میں نے سوچا۔۔بہت سوچا۔۔اِن خبروں میں کچھ تو سچائی ہوگی،ذرائع ابلاغ کے اتنے بڑے ادارے اتنی دیدہ دلیری سے اتنے جھوٹ کیسے وقت کے ڈاٹ کام پر رقم کر سکتے ہیں ،اور اگر کسی ڈاٹ کام کے ہونٹوں سے غلط بیانی کے چشمے پھوٹ رہے ہیں تو ابھی تک ان کی تردید میںکسی طرف سے گھنٹیاں کیوں نہیں بجیں، ابھی تک ابلاغ کی پریڈ میں سچ کے بینڈ کیوں نہیں بجے۔
مغربی میڈیاکے مطابق پچھلے پچاس سالوں میں ہزاروں افراد کو پاکستان کی سرکاری ایجنسیوں نے اغوا کیا اورپھر ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ پچھلے چند سالوں میں ایسے گمشدہ لوگوں کی تعداد چار ہزار ہے ۔کوئٹہ ، کراچی اور حیدر آبادکے پریس کلبوں کے باہر اکثر مرد، عورتیں اور بچے ایسے سینکڑوںگمشدہ سیاسی کارکنوں کی تصاویر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بہت پرانی ہے مگر اسے پھر نیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ملک میں مخالف سیاسی کارکنوں کا یہ علاج نکالا ہوا تھاکہ پہلے انہیں لا پتہ کیا جاتااور پھر ان کی تشّدد یا گولیوں سے چھلنی لاشیں بوریوں میں بندایدھی سینٹر والوں کو ملتیں۔اس سلسلے کو بھی ختم ہوئے عرصہ ہوگیا۔ یہ بھی الزام لگانا کہ رینجرز کے آپریشنز میںایم کیو ایم کے کوئی دوسو کے قریب کارکن گم ہوئے جن کے بارے میں آج تک معلوم نہیںہوسکا۔مغربی میڈیا کو زیب نہیں دیتا مگر کوئی بات نہیں۔صرف اس بات کا دکھ ضرور ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی دہشت گردی کی کارروائی دکھائی دے تواپنی آنکھوں پر یوں نقاب گِرالیتا ہے کہ جیسے طالبان کے دورمیںافغان نسوانی چہروں کیلئے سختی کے ساتھ پردہ واجب تھا۔ اور کہیں اور دہشت گردی میں کسی پاکستانی کا نام شامل ہو تو ٹیلی وژن کی اسکرین پر باربارپاکستان کا نام جلنے بجھنے لگتا ہے ۔اس وقت کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ریاستی دہشت گردی مغربی میڈیاکو دکھائی نہیں دیتی ۔
اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ دہشت گردی جو پاکستان میں خاصی حد تک تھم چکی ہے وہ کسی وقت بھی سر اٹھا سکتی ہے ۔مستحکم پاکستان سے بہت سے مغربی ممالک خوف زدہ ہیں ۔مغربی میڈیا اس وقت چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش میں ہے۔ تازہ خبریںجو یہاں پھیلائی گئی ہیں کہ دوست ملک پاکستان کے استحکام کیلئے یہاں مارشل لا چاہتا ہے۔جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ان دنوں ایک بات کی مجھے بہت تکلیف ہے کہ ہرروز کہیں نہ کہیں پاکستان میں مارشل لا لگنے کی،لگانے کی ،لگ جانے کی گفت و شنید سنائی دیتی ہے ۔کیوں ۔ کیا ہم پاکستانیوں کے پاس بہتری کیلئے کوئی راستہ موجود نہیں ۔جو تجربہ کئی بار کر چکے ہیں کیا پھر اسے دہرانا ضروری ہے ۔تبدیلی اقتدار کا کوئی اور بھی طریقہ ہونا چاہئے ۔ضروری نہیں ہے کہ پانچ کے بعد ہی الیکشن ہوں ۔ پہلے بھی کرائے جاسکتے ہیں۔سپریم کورٹ بھی اس سلسلے میں اپنا آئینی کردار ادا کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نئے ممبران بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر عمران خان نے ان پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ پیپلز پارٹی ہزار نون لیگ کے خلاف تقریریں کرتی رہے مگراصل میں دونوں ایک ہیں۔